سینیٹ انتخابات ریفرنس: افسوس پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے ہی معاہدے سے پھر گئیں، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2021
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ افسوس ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) اپنے ہی معاہدے سے پھر گئیں، دونوں جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت میں خفیہ طریقے کار کو ختم کرنے کا معاہدہ کیا تھا، میثاق جمہوریت کی دستاویز اب بھی موجود ہے لیکن اس پر دستخط کرنے والی پارٹیاں اب اس پر عمل نہیں کررہیں۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل و صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل و دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سینیٹ ووٹرز کے لیے ہدایت نامہ تیار کیا ہے؟ گزشتہ انتخاب کے لیے ہدایت نامہ تیار کیا گیا تھا تاہم ہمیں ابھی الیکشن کمیشن کی جانب سے ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کو یہاں ہونا چاہیے، جس پر سیکریٹری الیکشن کمیشن روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم نے ہدایت نامہ تیار کیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ووٹرز کے لیے ہدایت نامہ تیار کیا ہے تو دکھائیں۔

سپریم کورٹ نے ووٹرز کے لیے بنایا جانے والا ہدایت نامہ طلب کرتے ہوئے کہا کہ تمام ججز اور فریقین کے لیے کاپی منگوائیں، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے کاپیز مہیا کردیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: ’الیکشن کمیشن نے پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا‘

بعد ازاں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت میں دلائل دینا شروع کیے اور کہا کہ ہدایت نامے میں متناسب نمائندگی اور خفیہ ووٹنگ کا ذکر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ووٹ ڈالنے کا عمل خفیہ ہونا چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوتا۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر کوئی سزا نہیں، جس پارٹی کے خلاف ووٹ دینا ہے کھل کر دیں، سزا صرف ووٹوں کی خرید و فروخت پر ہو سکتی ہے۔

اسی پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ قانون ہمیشہ معاشرے کے تجربات سے بنتا ہے، کوئی برا واقعہ ہو تو اس کے حوالے سے قانون سازی ہوتی ہے، موجودہ حالات میں شخصیات کو نہیں اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔

احمد اویس نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو سیاسی جماعتیں لے کر آتی ہیں، جہنیں مزید مضبوط کرنا ہوگا۔

اس موقع پر احمد اویس نے کہا کہ شفافیت کے لیے ہر چیز خفیہ رکھنا لازمی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 59 میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکر نہیں، آئین کا آرٹیکل 59 سینٹ کے حوالے سے ہے۔

بعد ازاں ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے دلائل شروع کیے اور بتایا کہ ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال ہی غیر مناسب ہے۔

انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اپنے سر پر بوجھ نہیں اٹھا سکتے، ہارس ٹریڈنگ کا سب نے سنا ہے کسی کے پاس شواہد نہیں ہیں، اخباری خبروں اور ویڈیوز تک ہی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے۔

اسی دوران چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا کبھی سینیٹ کا الیکشن چیلنج ہوا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت کو سیاسی سوالات سے دور رہنا چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین بذات خود بھی ایک سیاسی دستاویز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدارتی ریفرنس: الیکشن کمیشن سے انتخابات میں شفافیت سے متعلق تجاویز طلب

چیف جسٹس نے کہا کہ آئینی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کر رہی ہوتی ہے۔

عدالت عظمیٰ کے بینچ کے سربراہ کے ریمارکس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام شفاف الیکشن کے لیے انتظامات کرنا ہے، پولنگ بوتھ میں نہ رشوت چلتی ہے نہ اُمیدوار سے کوئی رابطہ ہوتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا الیکشن کے نتائج کے بعد ووٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ گنتی کے وقت ووٹ کو دیکھا جاتا ہے تاہم گنتی کے وقت ووٹ ڈالنے والے کا علم نہیں ہوتا، آئین ووٹ ڈالنے والی کی شناحت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اسی دوران ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کیا اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوجائے گی؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی یا نہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آرٹیکل 226 کے تحت ہوتے ہیں، 226 انتخابات کو خفیہ رکھنے کا پابند کرتا ہے، آئین کے تحت ہونے والے انتخابات خفیہ ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت ترمیم چاہتی ہے، اٹارنی جنرل نے اس کی وضاحت کردی ہے، کابینہ کے پاس یہ معاملہ تھا لیکن انہوں نے بوجھ خود نہیں اٹھایا، سارا بوجھ انہوں نے عدالت پر ڈال دیا، سپریم کورٹ کا دائرہ ایڈوائزری ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ جس پر سلمان طالب الدین نے جواب دیا کہ عدالت صرف اٹھائے گئے سوالات کے جواب دے سکتی ہے، اب بہت ساری باتیں ہورہی ہیں، بہت کچھ سنا جارہا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ان باتوں سے غرض نہیں، اس پر چیف ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ یہ مکمل سیاسی معاملہ ہے، عدالت اس سے پہلو تہی کرے، عدالت خود کو سیاست سے بالاتر رکھے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں خود سیاسی قوانین موجود ہیں، ہم نے آئین کو دیکھنا ہے۔

ان کے ریمارکس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سینیٹ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمشن کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے دیں، کرپٹ پریکٹسز کی روک تھام بھی عدالت نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا کام ہے، کرپٹ پریکٹسز، رشوت ستانی و غیر قانونی پریکٹسز نہیں ہونی چاہئیں۔

ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں سب کچھ موجود ہے، الیکشن کے مراحل اور ان کا طریقہ کار سب وضع شدہ ہے، آرٹیکل 226 بالکل واضح ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب ٹھیک ہے لیکن آپ ووٹ کاسٹ کرنے کے وقت سے متعلق بتائیں، کیا ووٹ کی چھان بین کی جاسکتی ہے کہ یہ قانون کے تحت کاسٹ ہوا یا نہیں۔

اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ بیلٹ پیپر ووٹر کے ہاتھ میں آنے کے بعد اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا، کسی کو اجازت نہیں کہ وہ دیکھے کہ ووٹر نے کس کو ووٹ دیا، ووٹ کا اپنا تقدس ہے جس کو مجروح نہیں کیا جاسکتا، ووٹ کی خفیہ شناخت کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔

سلمان طالب الدین کا کہنا تھا کہ کہا جارہا ہے کہ ووٹ بکتے ہیں، فرض کرلیں ووٹ بکتے بھی ہیں لیکن پھر بھی اس کی شناخت نہیں ہوسکتی۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: عدالت نے تشریح کی تو سب پابند ہوں گے، سپریم کورٹ

جس پر بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ووٹ کی سیکریسی صرف بیلٹ بکس تک ہوتی ہے، اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہو تو ٹریبونل یا الیکشن کمیشن کیسے دیکھ سکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شکایت کی صورت میں کیا الیکشن کمیشن ووٹ کی شناخت کرسکتا ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے ووٹ کاسٹ کرتے تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن کس کو ووٹ دیا کوئی نہیں دیکھ سکتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ووٹ کی شناخت نہیں کی جاسکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ افسوس ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے ہی معاہدے سے پھر گئے، دونوں جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت میں خفیہ طریقے کار کو ختم کرنے کا معاہدہ کیا تھا، میثاق جمہوریت کی دستاویز اب بھی موجود ہے، لیکن اس پر دستخط کرنے والی پارٹیاں اب اس پر عمل نہیں کررہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو پہلے اطمینان کرنا ہے الیکشن میں گڑ بڑ ہوئی ہے، اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ کسی کا ووٹ دیکھنے سے کیسے پتا چلے گا اس نے پیسہ لیا۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا مخصوص نشستوں پر ہونے والا الیکشن آئین کے تحت ہوتا ہے؟ جس پر سلمان طالب الدین نے کہا کہ الیکشن آئین کے تحت ہی ہوتا ہے لیکن مخصوص نشستوں پر طریقہ کار مختلف ہے، مخصوص نشستوں پر خفیہ ووٹنگ نہیں ہوتی سیاسی جماعتیں نامزدگیاں کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس: ہم آئین کے محافظ ہیں، چیف جسٹس

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر ووٹنگ نہیں ہوتی پھر بھی اسے الیکشن کہا جاتا ہے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ متناسب نمائندگی سینیٹ میں صوبوں کی ہوتی ہے کسی جماعت کی نہیں، اس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ خفیہ رائے شماری کا اطلاق مخصوص نشستوں پر کیوں نہیں ہوتا؟

ان کی بات کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آرٹیکل 226 کا اطلاق وہاں ہوتا ہے جہاں ووٹنگ ہو، آرٹیکل 226 کی ایسی تشریح نہیں کی جاسکتی کہ آئین میں ترمیم کا تاثر ملے۔

بعد ازاں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے اپنے دلائل دیے اور کہا کہ قرآن پاک میں بھی کرپشن سے منع کیا گیا ہے، دنیا بھر کے انتحابی عمل میں کرپشن ہوتی تھی، دنیا نے انتحابی عمل سے کرپشن روکنے کے لیے اقدامات کیے۔

بعد ازاں اس کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

پس منظر

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی تھی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

وفاقی حکومت نے ریفرنس میں کہا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔

بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔

صدر مملکت نے 6 فروری کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے اور آرڈیننس جاری کردیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 نام دیا گیا ہے جبکہ آرڈیننس کو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا، اور واضح کیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ سے سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے مطابق رائے ہوئی تو خفیہ ووٹنگ ہوگی۔

علاوہ ازیں آرڈیننس کے مطابق عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کو الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دیا تو اوپن بیلٹ ہوگی اور اس کا اطلاق ملک بھر میں ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں