ملالہ کو دھمکی آمیز ٹوئٹ، ٹی ٹی پی ترجمان کا مبینہ اکاؤنٹ معطل

اپ ڈیٹ 18 فروری 2021
ملالہ یوسف زئی نے دو روز قبل ٹوئٹر پر ردعمل دیا تھا —فائل/فوٹو: اے ایف پی
ملالہ یوسف زئی نے دو روز قبل ٹوئٹر پر ردعمل دیا تھا —فائل/فوٹو: اے ایف پی

کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان کے مبینہ اکاؤنٹ سے نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کو دوسری مرتبہ نشانہ بنانے کی دھمکی کے بعد ٹوئٹر نے مذکورہ اکاؤنٹ معطل کردیا۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق ٹوئٹر نے ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا مبینہ اکاؤنٹ مستقل طور پر ہٹا دیا ہے۔

مزید پڑھیں: دھمکیاں دینے والا احسان اللہ احسان فرار کیسے ہوا، ملالہ یوسف زئی

احسان اللہ احسان سے منسوب اکاؤنٹ کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی۔

قبل ازیں ٹوئٹر پر دھمکی آمیز بیان پر ملالہ یوسف زئی نے فوری ردعمل دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان اور پاک فوج کے ترجمان سے حکومت کی حراست سے فرار ہونے پر سوالات کیے تھے۔

وزیراعظم کے مشیر رؤف حسن نے کہا تھا کہ حکومت اس دھمکی کی تفتیش کر رہی ہے اور ٹوئٹر سے فوری طور پر کہا گیا ہے کہ اس اکاؤنٹ کو معطل کردیں۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان حکومت کی حراست سے فرار کے بعد متعدد اداروں کو انٹرویو دے چکے ہیں اور ٹوئٹر کے مذکورہ اکاؤنٹ کے ذریعے صحافیوں سے بات چیت بھی کرتے رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق احسان اللہ احسان کے ایک سے زیادہ ٹوئٹر اکاؤنٹ ہیں اور تمام اکاؤنٹس کو معطل کر دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ 16 فروری کو ملالہ یوسف زئی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ 'تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان نے کئی معصوم افراد اور میرے اوپر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، وہ اب سوشل میڈیا پر لوگوں کو دھمکیاں دے رہا ہے'۔

ملالہ یوسف زئی نے سوال کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ڈی جی آئی ایس پی اور عمران خان! وہ کیسے فرار ہوا'۔

مزید پڑھیں: احسان اللہ احسان کو ایک آپریشن میں استعمال کررہے تھے کہ وہ فرار ہوگیا، ترجمان پاک فوج

احسان اللہ احسان کے نام سے منسوب ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا گیا تھا کہ 'ملالہ جی! آپ جلد اپنے پہلے گھر تشریف لائیے، آپ اور آپ کے والد صاحب کے ساتھ ابھی بہت سارا حساب باقی ہے'۔

مذکورہ اکاؤنٹ میں کہا گیا کہ 'آپ کے ذمہ جو قرض واجب الادا ہے وہ آپ سے وصول کرنا ہے، اس دفعہ حساب کتاب کے لیے ماہر بندہ بھیج دیا جائے گا تاکہ کوئی شک باقی نہ رہے'۔

ملالہ یوسف زئی پر نامعلوم افراد نے 9 اکتوبر 2012 کو سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے قریب حملہ کردیا تھا، ان کے ساتھ مزید دو طالبات بھی زخمی ہوئی تھیں اور بعد ازاں حملے میں طالبان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تھے۔

حملے میں شدید زخمی ہونے کی وجہ سے بعد ازاں ملالہ یوسف زئی کو علاج کے لیے برطانیہ منتقل کردیا گیا تھا اور پھر وہ وہیں پر ہی رہائش پذیر ہوگئیں اور انہیں برطانیہ میں رہائش کے دوران ہی نوبیل انعام اور ستارہ شجاعت سمیت دیگر کئی عالمی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

ملالہ یوسف زئی نے برطانیہ میں رہائش کے دوران ہی معروف آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا، جہاں سے انہوں نے رواں برس جون میں 22 سال کی عمر میں گریجوئیشن کی تعلیم مکمل کی تھی۔

گزشتہ دنوں انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'سوات پاکستان ہمیشہ پہلا گھر ہے اور وہ مجھے اپنی جان سے عزیز ہے، میری خواہش ہے کہ میں جلد پاکستان جاؤں اور دوبارہ اپنا گھر دیکھوں'۔

یاد رہے کہ 17 اپریل 2017 کو پاک فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا۔

گزشتہ برس فروری کے آغاز میں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ احسان اللہ احسان مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

بعدازاں 17 فروری کو سابق وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے احسان اللہ احسان کے فرار سے متعلق میڈیا میں چلنے والی خبروں کی تصدیق کی تھی۔

مزید پڑھیں: احسان اللہ احسان نے خود کو فورسز کے حوالے کردیا: پاک فوج

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی فروری 2020 میں پہلی مبینہ آڈیو ٹیپ سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے 11 جنوری 2020 کو 'پاکستانی سیکیورٹی اتھارٹیز کی حراست سے’ فرار ہونے کا انکشاف کیا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ترکی میں موجود ہیں جبکہ متعدد ذرائع کا ماننا ہے کہ دہشت گرد گروہ کے سابق ترجمان افغانستان میں ہیں۔

آڈیو پیغام میں کالعدم تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے نام سے مشہور لیاقت علی کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے سامنے 5 فروری 2017 کو ایک معاہدے کے تحت ہتھیار ڈالے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ میں نے اپنی طرف سے وعدوں کی پاسداری کی لیکن پاکستانی عہدیداروں پر اس کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اور میرے اہل خانہ کو قید میں رکھا گیا۔

بعدازاں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے احسان اللہ احسان کے مبینہ طور پر ملک سے فرار ہونے پر تفصیلی رپورٹ طلب کی تھی اور 13 فروری کو شہدائے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور کے لواحقین نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد سے رجوع کیا تھا.

چیف جسٹس کو اپنی درخواست میں سانحے میں شہید ہونے والے 15 طلبہ کے لواحقین نے کہا تھا کہ 'ہم لواحقین احسان اللہ احسان کے سرکاری تحویل میں تقریباً تین سال گزارنے کے بعد اہلخانہ سمیت مبینہ طور پر فرار ہونے کی خبر سن کر سخت صدمے میں ہیں'۔

مزید پڑھیں: احسان اللہ احسان کے 'فرار' کا معاملہ: شہدا اے پی ایس کے لواحقین کا چیف جسٹس سے رجوع

درخواست میں کہا گیا تھا کہ سفاک دہشت گرد نے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں 147 طلبہ اور اساتذہ شہید ہوئے۔

گزشتہ برس اگست میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرار اور اس کے بعد مبینہ آڈیو ٹیب سے متعلق سوال پر تصدیق کردی تھی کہ ایک آپریشن کے دوران احسان اللہ احسان کو استعمال کیا جارہا تھا اور وہ اس دوران فرار ہوگیا۔

پریس بریفنگ کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے احسان اللہ احسان کی مبینہ آڈیو ٹیپ میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مبینہ آڈیو ٹیپ میں لگائے گئے الزامات کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں، وہ مکمل طور پر بے بنیاد ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں