ضمنی انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرسکتے، مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 25 فروری 2021
مولانا فضل الرحمٰن پشاور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں - فوٹو:ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن پشاور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں - فوٹو:ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابی حلقے کرم ایجنسی اور ڈسکہ میں دھاندلی کے ذریعے نتائج تبدیل کیے گئے جو کسی قیمت پر قابل قبول نہیں۔

پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے نتائج روکے ہوئے ہیں اور اس پر انہیں حقیقت پسندانہ انداز کے ساتھ اپنا فیصلہ صادر کرنا چاہیے اور اس الیکشن کو منسوخ کردینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن سے قبل ہی کرم ایجنسی میں 600 جعلی ووٹ پوسٹل ووٹ پکڑے گئے اور وہ ثابت ہوچکے ہیں، اس کے بعد پی ٹی آئی کے اُمیدوار کو نا اہل قرار دینے کے بجائے انہیں انتخاب میں حصہ لینے دیا گیا اور تیسرے نمبر پر آنے والے کو پہلے نمبر پر لایا گیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم ڈسکہ کے 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ انتخاب کے خواہاں

ان کا کہنا تھا کہ 'واضح طور پر دھاندلی ہوئی ہے اور موقع پر موجود پولنگ افسر یا تو اس میں ملوث ہیں یا بے بس، ہم انتخاب کے نتائج کو تسلیم نہیں کرسکتے'۔

جے آئی یو سربراہ کا کہنا تھا کہ 'جنوبی وزیرستان میں قبائلی جنگ جاری ہے، خونریزی ہورہی ہے جس میں 5 افراد ہلاک ہوچکے ہیں قومی اسمبلی اور اس میں مزید اضافے کا خطرہ ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وہاں موجود انتظامیہ یا تو بے بس ہے یا سمجھتی ہے کہ قبائل آپس میں لڑے تاکہ ہمیں جن علاقوں پر جنگ ہے اس پر قبضہ کرنے کا موقع مل سکے'۔

انہوں نے بتایا کہ 'جمعیت علمائے اسلام (ف) فاٹا کے امیر کو ہدایت دوں گا کہ تمام قبائل کا جرگہ بلایا جائے اور مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں'۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ فاٹا کے انضمام کے بعد وہاں نہ کوئی پرانا قانون ہے اور نہ کسی نئے قانون کی عمل داری، وہاں کے لوگ پریشان زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز نے ڈسکہ انتخاب میں مبینہ دھاندلی کا الزام 'ایجنسیز' پر عائد کردیا

ان کا کہنا تھا کہ قبائل میں جب زمینوں کی تقسیم ہوگی تو گھر گھر پر لڑائی ہوں گی اور خونریزی ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ وہاں کی خصوصی حیثیت کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک رٹ دائر کی گئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ آئین کے خلاف قدم اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس پر باقاعدہ سماعت کا جلد آغاز کیا جانا چاہیے تاکہ اس مسئلے کا عدالتی حل سامنے آسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں