فائزر/بائیو این ٹیک کی کووڈ 19 ویکسین ممکنہ طور پر موٹاپے کے شکار افراد میں کم مؤثر ہوتی ہے۔

یہ بات اٹلی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ موٹاپے کے شکار طبی ورکرز میں ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد اینٹی باڈیز بننے کی شرح عام وزن کے حامل افراد کے مقابلے میں 50 فیصد تک کم تھی۔

اگرچہ ابھی ویکسین کی افادیت کے حوالے سے کچھ تعین کرنا قبل از وقت ہوگا مگر محققین کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ زیادہ جسمانی وزن والے افراد کو اضافی بوسٹر ڈوز کی ضرورت ہوسکتی ہے تاکہ کورونا وائرس کے خلاف مناسب تحفظ مل سکے۔

اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ موٹاپا کووڈ 19 سے موت کا خطرہ 50 فیصد تک بڑھا سکتا ہے جبکہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے کا خطرہ 113 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔

اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد کو اکثر مختلف امراض جیسے امراض قلب یا ذیابیطس ٹائپ ٹو کا سامنا بھی ہوتا ہے، جو کورونا وائرس سے موت کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔

اسی طرح جسم میں اضافی چربی سے میٹابولک تبدیلیاں جیسے انسولین کی مزاحمت اور ورم بھی ہوتی ہیں جو جسم کے لیے بیماریوں کے خلاف لڑائی مشکل بناتی ہیں۔

یہ نئی تحقیق ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی مگر اس میں پہلی بار موٹاپے اور کووڈ 19 ویکسینز کی افادیت میں کمی کے درمیان تعلق کے شواہد دیئے گئے ہیں۔

روم کی Istituti Fisioterapici Ospitalieri کی اس تحقیق میں 248 طبی ورکرز میں فائزر ویکسین کی 2 خوراکوں سے اینٹی باڈی ردعمل کی جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق کے مطابق دوسری خوراک ملنے کے 7 دن بعد 99.5 فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل بن گیا تھا اور یہ ردعمل کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد سے زیادہ طاقتور تھا۔

تاہم اینٹی باڈل ردعمل ایسے افراد میں کمزور دریافت ہوا جو موٹاپے یا زیادہ جسمانی وزن کے مالک تھے۔

محققین نے بتایا کہ موٹاپا کووڈ 19 میں سنگین بیماری اور موت کا خطرہ بڑھانے والا ایک بڑا عنصر ہے، تو ایسے گروپ کے لیے مؤثر ویکسینیشن پروگرام کے لیے منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے، مگر ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد کے لیے ویکسینیشن حکمت عملیوں کی ضرورت ہے، اگر نتائج کی تصدیق زیادہ بڑے پیمانے پر تحقیق سے ہوئی تو موٹاپے کے شکار افراد کو اضافی خوراک یا زیادہ مقدار میں ڈوز دینے جیسے آپشنز پر غور کیا جاسکتا ہے۔

امپرئیل کالج لندن کے امیونولوجی پروفیسر ڈینی التمان جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھے، نے بتایا کہ ہم ہمیشہ سے جانتے ہیں جسمانی وزن ویکسینز پر کمزور مدافعتی ردعمل کی پیشگوئی کرنے میں مدد دے سکتا ہے، تو یہ تحقیق ضرور اہم ہے، اگرچہ یہ ایک چھوٹے پیمانے کا ڈیٹاسیٹ ہے، مگر اس سے تصدی ہوتی ہے کہ ویکسین کا اثر ہر فرد پر برابر نہیں ہوتا، بالخصوص کسی ایسے ملک میں جہاں موٹاپے کی شرح زیادہ ہو۔

پروفیسر ڈینی اور ان کے ساتھیوں نے برازیل میں طبی عملے پر ایک تحقیق میں دریافت کیا تھا کہ کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے والے افراد میں زیادہ جسمانی وزن زیادہ عام ہوتا ہے اور پہلی بار بیماری کے بعد ان میں اینٹی باڈی ردعمل کمزور ہوتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں