کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ رات بھر 8 گھنٹے کی نیند، صبح کی متحرک سرگرمیاں اور دوپہر کے صحت بخش کھانے کے بعد اچانک طبیعت سست اور غنودگی چھانے لگتی ہے؟

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں متعدد افراد دوپہر کو نیند یا قیلولہ کرتے ہیں، مگر اس کی وجہ کیا ہے؟

تو ایسا لگتا ہے کہ سائنسدانوں نے جواب جان لیا ہے۔

درحقیقت قیلولہ کرنے کی عادت جینز میں ہوتی ہے اور اس کا تعلق رویوں کے انتخاب سے نہیں۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

ہارورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 5 لاکھ افراد کے جینومز کا تجزیہ کرنے پر دریافت کیا گیا کہ دوپہر کی نیند کی وجہ حیاتیاتی ہے۔

میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کے محققین نے انسانی جینوم میں 123 حصوں کو شناخت کیا جن کا تعلق دوپہر کی نیند سے تھا۔

مزید گہرائی میں جانے پر محققین نے قیلولے کا باعث بننے والے 3 ممکنہ میکنزمز کو دریافت کیا۔

2 میکنزمز کو ڈس رپٹڈ سلیپ اور ارلی مارننگ اویکیننگ کا نام دیا گیا، کیونکہ یہ ایسے افراد میں نظر آئے جو یا تو رات کو مناسب وقت تک سو نہیں سکے یا کسی وجہ سے جلد اٹھ گئے۔

تیسرے میکنزم کو سلیپ پروپینسیٹی کا نام دیا گیا، جس سے مراد یہ ہے کہ کسی فرد کو کتنے وقت تک نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ قیلولے کی عادت جینز میں چھپی ہوتی ہے اور اس کا ماحول یا رویوں سے کوئی تعلق نہیں۔

تحقیق میں کچھ جینیاتی عادات کی بھی سشناخت کی گئی جن کو طبی مسائل بشمول موٹاپے اور ہائی بلڈ پریشر سے منسلک کیا گیا۔

تحقیق میں شامل ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ماہر Iyas Daghlas نے بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھچ لوگ کیوں دوپہر کو قیلولہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔

کچھ عرصے قبل آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد سستی اور غنودگی کا احساس فطری ہے کیونکہ انسان دن میں 2 نیندیں لینے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

اسی طرح امریکا کی سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ سہ پہر تین بجے کے قریب انسانی جسمانی گھڑی سست ہوجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ غنودگی یا سستی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں