راوی ریور فرنٹ منصوبہ: لاہور ہائیکورٹ نے حکم امتناع کے باوجود اراضی کے حصول کا نوٹس لے لیا

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2021
اس منصوبے کی انوائرمنٹ امپیکٹ اسسمنٹ تک اراضی کے حصول کا کوئی عمل نہیں ہوگا، عدالت کی حکومت کو ہدایت  - فائل فوٹو:ای پراپرٹیز ویب سائٹ
اس منصوبے کی انوائرمنٹ امپیکٹ اسسمنٹ تک اراضی کے حصول کا کوئی عمل نہیں ہوگا، عدالت کی حکومت کو ہدایت - فائل فوٹو:ای پراپرٹیز ویب سائٹ

لاہور ہائیکورٹ نے حکم امتناع کے باوجود راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے لیے اراضی کے حصول کا نوٹس لے لیا اور وزیر اعظم کے فلیگ شپ منصوبے کے انوائرمنٹ امپیکٹ اسسمنٹ (ای آئی اے) تک صوبائی حکومت کو کسی بھی عمل سے روک دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متعدد درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس شاہد کریم نے ریونیو حکام اور کسانوں کے درمیان تصادم سے متعلق میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیا اور صوبائی لا آفیسر سے سوال کیا کہ حکم امتناع کے بعد اس منصوبے کے لیے زمین کیوں خالی کی جارہی ہے۔

لا آفیسر نے کہا کہ یہ اراضی ایکٹ 1894 کے سیکشن 9 کے تحت لینڈ کلیکٹر کی طرف سے عوامی سماعت تھی۔

مزید پڑھیں: راوی ریور اربن پروجیکٹ کی تعمیر محکمہ تحفظ ماحول کی منظوری سے مشروط

جج نے مشاہدہ کیا کہ عدالت کو پہلے بتایا گیا تھا کہ زمین کے حصول کے لیے ایکٹ کی دفعہ 4 کے تحت جاری کردہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسانوں سے بدتمیزی کی گئی ہے تو یہ بدقسمتی ہے۔

لا آفیسر نے کہا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ عدالت نے صرف سائٹ پر تعمیراتی کام روکا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ایک اور عدالت نے بھی ای آئی اے سے متعلق حتمی فیصلے پر حکم امتناع جاری کر رکھا ہے۔

جسٹس کریم نے حکومت کو ہدایت کی کہ اس منصوبے کی ای آئی اے تک اراضی کے حصول کا کوئی عمل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت کے ایک منصوبے اورنج لائن میٹرو ٹرین کے لیے ان کی جائیدادوں کے حصول سے لوگوں کی زندگیاں بکھر گئیں۔

جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ 'پرانے شہر میں نسلوں پرانے مکان کا متبادل ڈی ایچ اے میں پلاٹ بھی نہیں ہوسکتا ہے'۔

جج نے مزید مشاہدہ کیا کہ اراضی حصول ایکٹ 2013 میں جائز معاوضے کے حقوق کے تحت بھارتی پارلیمنٹ نے انقلابی تبدیلیاں کیں اور بغیر آزادانہ رضامندی حاصل کیے قبضہ نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: راوی ریور فرنٹ منصوبے کو حاصل ’قانونی استثنیٰ‘ پر سوالات اٹھ گئے

انہوں نے کہا کہ بھارتی قانون، قانون سازی کی بہترین مثال ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں زمینوں کے حصول کے قوانین کے بارے میں فیصلہ دیا جائے۔

ایک درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ شیراز ذکا نے استدلال کیا کہ اراضی کے حصول کے قوانین کی صریح خلاف ورزی کی گئی ہے کیونکہ کسانوں کو اپنی زمین بیچنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ریور فرنٹ منصوبے کے کسی عوامی مقصد کا انکشاف نہیں کیا جو ایکٹ کی دفعہ 4 کے تحت لازمی ہے۔

وکلا ابوذر سلمان نیازی اور احمد رفائے عالم نے دیگر درخواست گزاروں کی نمائندگی کی۔

جج 11 مارچ کو دوبارہ سماعت کا آغاز کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں