• KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm

اپوزیشن قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی، مولانا فضل الرحمٰن

شائع March 5, 2021 اپ ڈیٹ March 6, 2021
— فائل/فوٹو: ڈان نیوز
— فائل/فوٹو: ڈان نیوز

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کا کوئی رکن شرکت نہیں کرے گا۔

خیال رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 6 مارچ کو اعتماد کے ووٹ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے، جس کا اعلان وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 3 مارچ کو سینیٹ انتخابات کے فوری بعد کیا تھا۔

سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'وزیر اعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے قومی اسمبلی کا کل بلائے گئے اجلاس میں حزب اختلاف کا کوئی بھی رکن شریک نہیں ہوگا'۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی ای سی پی پر تنقید: مرضی کے فیصلے آئیں تو ادارے اچھے ورنہ برے، مریم نواز

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'عدم اعتماد سینیٹ کے انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کی صورت میں ہوچکا ہے اور صدر مملکت نے قومی اسمبلی کے اجلاس بلانے کے فرمان میں اجلاس بلانے کی یہی وجہ لکھی ہے کہ میرے نزدیک آپ اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں، لہٰذا آپ دوبارہ اکثریت کا اعتماد لیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب صدر مملکت بھی قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے اعتماد کھونے کی بات کرتا ہے تو اس سے اپوزیشن کا مؤقف اور مضبوط ہوجاتا ہے، اپوزیشن کی عدم شرکت کے بعد اس اجلاس کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں ہوگی'۔

انہوں نے کہا کہ ملک اور بیرون ملک دنیا میں اس حکومت کو عوام کی نمائندہ حکومت باور نہیں کیا جائےگا، عمران خان نے قوم سے خطاب جس لب و لہجے میں کیا ہے اس سے خود ان کی شکست خوردگی چھلک رہی تھی اور یہ اعصابی طور پر شکست کھا چکے ہیں'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'سینیٹ کے انتخابات میں ان کے بقول بولی لگی، اس کا الزام وہ کس کو دے رہے ہیں یعنی اپنے پی ٹی آئی کے ارکان کو بکاؤ مال کہہ رہے ہیں اور کل جب وہ اعتماد کا ووٹ لیں گے تو ان 18 ارکان کا بھی ووٹ ہوگا، اس کے بغیر ممکن نہیں ہے وہ ایک یا دو لوگوں کی اکثریت کے ساتھ ووٹ لے سکیں گے'۔

صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ 'جب صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد ہوا تھا تو جن لوگوں نے اپنی وفاداریاں بیچی تھیں تو اس وقت عمران خان نے کہا تھا کہ یہ ان کی ضمیر آواز ہے، آج اپنی پارٹی کے لوگوں کی جانب سے ووٹ نہ ملنے کو بکنے سے کیوں تعیبر کر رہے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: 'وزیراعظم کا بیان الیکشن کمیشن کیلئے دکھی ہونے کی نہیں شرمندہ ہونے کی بات ہے'

ان کا کہنا تھا کہ 'جو دعوے آج تک وہ کرتے رہے ہیں آج ان سب دعوؤں کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے، کس کے خلاف لوگوں کو باہر نکالیں گے کیوں، پی ڈی ایم کے خلاف نکالیں گے، لوگ نہیں پوچھیں گے کہ مہنگائی کیوں کی، اداروں سے کارکنوں کو نکال کر ان اداروں کو کمزور کیوں کیا، آٹا، چینی، گھی اور پیٹرول مہنگا کیوں کیا، اب لوگ آپ سے پوچھیں گے، آپ نہیں پوچھ سکتے'۔

انہوں نے کہا کہ 'تجاوزات کے نام پر لاکھوں لوگوں کو بے گھر کردیا ہے، گھروں سے محروم کردیا ہے اور کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'الیکشن کمیشن کو مورد الزام ٹھہرایا، الیکشن کمیشن نے وضاحت کے ساتھ عمران خان کی تقریر کو غیر منطقی کہا اور ہم سمجھتے ہیں الیکشن کمیشن کو مورد الزام ٹھہرانا اور سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے بات کرنا اصل موضوع نہیں ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'الیکشن کمیشن کو اگر انہوں نے مورد الزام ٹھہرایا ہے تو فارن فنڈنگ کیس پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا ہے، ہم ان کی تمام چالوں کو جانتے ہیں، ہم آپ کو جان چکے ہیں لہٰذا قوم کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا'۔

صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ 'کل قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کوئی رکن نہیں جائے گا اور اس بات کی ایک رکن کو کہہ کر دیکھیں کہ وہ وہاں کیا ڈراما بازی کر رہے ہیں تاکہ صورت حال واضح ہو'۔

انہوں نے کہا کہ یہ حواس باختگی ہے، اب ان کے ہاتھ سے سب کچھ نکل چکا ہے اور پاکستان میں اس وقت کوئی حکومت نہیں ہے، اس لیے فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کر کے عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کو آنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کے خیالات پر دکھ ہوا، ہمیں آزادانہ طور پر کام کرنے دیں، الیکشن کمیشن

یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کے امیدوار کے طور پر نامزد کرنے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 8 مارچ کو اجلاس طلب کر لیا گیا وہاں فیصلے ہوں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ قومی اسمبلی میں حکومتی اجلاس سے ان کا بیانیہ اور اس کی اہمیت ختم ہوجائے گی، یک طرفہ کارروائی ہو رہی ہیں اور آج تک جعلی اکثریت سے حکومت کرتے رہے ہیں، اب اس کا جعلی ہونا واضح ہو کر بے نقاب ہو گا۔

خیال رہے کہ 3 مارچ کو قومی اسمبلی مں اسلام آباد کی سینیٹ نشست پر حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کی پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست کے بعد وفاقی وزرا نے اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔

گزشتہ روز قوم سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔

وزیراعظم نے ای سی پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'سپریم کورٹ میں آپ نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کیوں کی، کیا آئین چوری کی اجازت دیتا ہے، پھر آپ نے قابل شناخت بیلٹ پیپزر کی مخالفت کی اگر ایسا ہو جاتا تو آج جو ہمارے 15، 16 لوگ بکے ہیں ہم ان کا پتا لگا لیتے، یہ پیسے دے کر اوپر آنا کیا جمہوریت ہے، الیکشن کمیشن نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، آپ کو سپریم کورٹ نے موقع دیا تو کیا 1500 بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ نہیں لگایا جاسکتا تھا، آج آپ نے ملک کی جمہوریت کا وقار مجروح کیا ہے'۔

وزیراعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آپ کو اندازہ نہیں کہ اس الیکشن میں کتنا پیسا چلا ہے، میں نے الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ ریٹ لگ گئے ہیں، کیا آپ کو نہیں پتہ یہ تحقیقات کرنے کی ذمہ داری آپ کی تھی، جو کروڑوں روپے خرچ کر کے سینیٹر بنے گا وہ ریکور کیسے کرے گا، جو کروڑوں روپے خرچ کر کے سینیٹر بنے گا وہ کیا حاتم طائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پارلیمنٹ میں بھی اوپن بیلٹ کا بل پیش کیا، ہم نے اوپن بیلٹ کے لیے بل پیش کیا تو یہ تمام جماعتیں خفیہ بیلٹ پر اکٹھی ہوئیں، جس کے بعد ہم معاملے کو سپریم کورٹ لے کر گئے، وہاں الیکشن کمیشن نے اس کی مخالفت کی اور عدالت عظمیٰ نے کہا کہ صاف و شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2024
کارٹون : 3 دسمبر 2024