شمالی وزیرستان میں مزدوروں کو 12 سال سے لاپتا ٹیچر کی باقیات مل گئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مزدور ڈوسالی گیرم روڈ کی توسیع کا کام کررہے تھے جب انہیں باقیات ملیں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی سوئیڈن میں لاپتہ

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ روڑ سے متعلق منصوبے پر کام جاری تھا جب مزدوروں کو چند ہڈیاں اور دیگر اشیا ملیں، جن میں شناختی کارڈ بھی شامل تھا۔

انہوں نے بتایا کہ شناختی کارڈ پر نام محمد سلام درج تھا جو مبینہ طور پر 10 سے زائد عرصے سے لاپتا تھے۔

حکام نے باقیات مقتول کے بیٹے شوکت خان کے حوالے کردی، جنہیں میر علی کے گاؤں خوشحالی میں دفن کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: شمالی وزیرستان: آپریشن کے دوران 2 دہشتگرد ہلاک، ایک گرفتار

متاثرہ شخص کے اہلخانہ نے بتایا کہ نامعلوم افراد 2008 میں محمد سلام کو اٹھا کر لے گئے تھے جس کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں تھیں۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ محمد سلام جب لاپتا ہوئے تب ان کی عمر 60 سال تھی جبکہ ان کی رہائش گاہ پر حیات اللہ خان نامی صحافی نے مختصر وقت گزارا تھا۔

حیات اللہ خان نے محمد سلام کی رہائش گاہ میں مختصر وقت پناہ لی تھی جب 2006 میں اپنے اغوا کاروں سے فرار ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حیدر آباد میں ’لاپتہ افراد‘ کے اہلخانہ کی بھوک ہڑتال

مقتول صحافی کو دسمبر 2005 میں نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کیا تھا اور جون 2006 میں گولیوں سے چھنی ان کی لاش ملی تھی۔

حیات اللہ کے اغوا اور قتل کی عدالتی تحقیقات پشاور ہائیکورٹ کے جج کے توسط سے کی گئیں لیکن ایک دہائی گزرنے کے باوجود اس کی انکوائری رپورٹ کو حکومتوں نے عام نہیں کیا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 6 مارچ 2021 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں