نئے کورونا وائرس کی وبا دسمبر 2019 میں سامنے آئی تھی اور 15 ماہ کے دوران اس میں متعدد تبدیلیاں آئی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں کورونا وائرس کی نئی اقسام حالیہ مہینوں میں سامنے آئی ہیں، جو زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہیں یا مدافعتی نظام پر حملہ آور ہوسکتی ہیں۔

ایسی نئی اقسام امریکی ریاست کیلیفورنیا، ڈنمارک، برطانیہ، جنوبی افریقہ، جاپان اور برازیل میں دریافت ہوئی ہیں اور سائنسدانوں کی جانب سے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ویکسینز ان کے خلاف کس حد تک کام مؤثر ہیں۔

اب امریکا میں اس حوالے سے ہونے والی ایک طبی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں۔

میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی، میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل اور ہارورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ برازیل اور جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی اقسام فائزر اور موڈرنا کی کووڈ ویکسینز سے وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کو کم مؤثر بناسکتی ہیں۔

تحقیق کے دوران ماہرین نے دیکھا کہ ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز وائرس کی اصل قسم اور نئی اقسام پر کس حد تک مؤثر طریقے سے کام کرتی ہیں۔

ماہرین نے بتایا کہ جب ہم نے نئی اقسام پر وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی تو دریافت کیا کہ جنوبی افریقی قسم اینٹی باڈیز کے خلاف 20 سے 40 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔

اسی طرح برازیل اور جاپان میں دریافت 2 اقسام پرانی قسم کے مقابلے میں اینٹی باڈیز کے خلاف 5 سے 7 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہیں۔

محققین نے بتایا کہ یہ اینٹی باڈیز وائرس کو سختی سے جکڑ کر انہیں خلیات میں داخل ہونے سے روکتی ہیں، جس سے بیماری سے تحفظ ملتا ہے۔

مگر یہ عمل اسی وقت کام کرتا ہے جب اینٹی باڈی کی ساخت وائرس کی ساخت سے مثالی مطابقت رکھتی ہو، اگر وائرس کی اس جگہ کی ساخت مختلف ہو جہاں اینٹی باڈیز منسلک ہوتی ہیں، یعنی کورونا وائرس کا اسپائیک پروٹین، تو اینٹی باڈیز اسے مؤثر طریقے سے شناخت اور ناکارہ بنانے سے قاصر ہوجاتی ہیں۔

اسی کے لیے ویکسین کے خلاف وائرس کی مزاحمت کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ہم نے ان اقسام کے اسپائیک پروٹین کے ایک مخصوص حصے میں میوٹیشنز کو دریافت کیا جو اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔

تحقیق کے مطابق جنوبی افریقہ کی 3 اقسام ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت کرتی ہیں اور ان سب کے اسپائیک پروٹین کے مخصوص میں ایک جیسی 3 میوٹیشنز موجود ہیں، جو ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔

اس وقت کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے استعمال ہونے والی ویکسینز جسم کو مدافعتی ردعمل بشمول اسپائیک پروٹین کے خلاف اینٹی باڈیز بنانے کی تربیت فراہم کرتی ہیں۔

محققین نے بتایا کہ اگرچہ نئی اقسام کی جانب سے اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت قابل تشویش ضرور ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ویکسینز مؤثر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اینٹی باڈیز کے علاوہ بھی جسم کے مدافعتی تحفظ کے مختلف طریقہ کار ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ویکسینز کووڈ کی روک تھام نہیں کرسکتیں، بس مدافعتی ردعمل کا ایک حصہ یعنی اینٹی باڈی کچھ نئی اقسام کو شناخت کرنے میں مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔

تحقیق میں کہا گیا کہ نیا کورونا وائرس ممکنہ طور پر پھیلاؤ کے ساتھ خود کو بدلتا رہے گا، اس لیے میوٹیشنز کے بارے میں سمجھنے سے مدافعتی نظام کے خلاف مزاحمت کرنے والی اقسام مزید بہتر ویکسینز تیار کرنے میں مدد ملے گی، جو ان نئی اقسام کے خلاف تحفظ فراہم کرسکیں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں