فیصل آباد: ہراسانی کی انکوائری کیلئے یونیورسٹی نے شکایت گزار کو طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 22 مارچ 2021
فیکلٹی ممبران نے جنسی طور پر ہراساں کے الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی تمام مردوں پر مشتمل کمیٹی پر سوالات اٹھا دیے۔  - فائل فوٹو:اے پی پی
فیکلٹی ممبران نے جنسی طور پر ہراساں کے الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی تمام مردوں پر مشتمل کمیٹی پر سوالات اٹھا دیے۔ - فائل فوٹو:اے پی پی

یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد (یو اے ایف) کی حقائق تلاش کرنے والی کمیٹی نے 24 مارچ کو طلبہ کو طلب کرلیا جنہوں نے اپنے تھیسس سپروائزر کے خلاف جنسی ہراسانی کی شکایت درج کروائی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایم ایس سی (آنرز) کی کم از کم تین طلبہ نے الزام لگایا تھا کہ ان کے سپروائزر، جو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، نے ان کے مقالوں کی جانچ پڑتال کے دوران یکم اور 2 مارچ کو انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا اور قابل اعتراض زبان استعمال کی تھی۔

یو اے ایف نے سپروائزر کو تبدیل کردیا تھا۔

فیکلٹی ممبران نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی تمام مردوں پر مشتمل کمیٹی پر سوالات اٹھا دیے۔

مزید پڑھیں: فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں ہراسانی الزامات کی تحقیقات کا آغاز

کمیٹی کے ممبران میں فوڈ سائنسز کے ڈین ڈاکٹر مسعود صادق بٹ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (این آئی ایف ایس اے ٹی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ڈاکٹر طاہر ظہور اور جانوروں سے متعلق شعبے کے ڈین ڈاکٹر محمد اسلم مرزا شامل ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اساتذہ نے اس طرح کی کمیٹیوں میں خواتین کو شامل کرنا لازمی قرار دیتے ہوئے این آئی ایف ایس اے ٹی کے ڈائریکٹر جنرل کو اس ٹیم میں شامل کرنے پر بھی سوال اٹھایا جو اس شعبے کے سربراہ ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا، اور کہا کہ طالبات اپنی کہانی تمام مردوں پر مشتمل کمیٹی کو کیسے سنا پائیں گی۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ اسٹوڈنٹس افیئرز کے ڈائریکٹر شہباز طالب سے شکایت کرنے کے بعد لڑکیوں نے بھی ڈی جی سے ملاقات کی اور انہیں صورتحال سے آگاہ کیا، ڈی جی نے محکمانہ انکوائری کرنے کی بجائے لڑکیوں کو راضی کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اب وہ ہی ان کے تھیسس کو سپروائز کریں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ این آئی ایف ایس اے ٹی کے ایک سینئر فیکلٹی ممبر نے انکوائری میں شامل ہونے سے قبل شکایت کنندہ سے اپنے دفتر میں ملنے کے لیے کہا ہے تاہم انہوں نے سوال کیا کہ مذکورہ فیکلٹی ممبر ان سے پہلے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: یو اے ایف انتظامیہ 'ہراسانی' کے واقعات کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے

انہوں نے بتایا کہ چند خواتین اساتذہ سے کمیٹی کو زبانی طور پر مدد کرنے اور شکایت کرنے والوں سے رابطہ قائم رکھنے کو کہا گیا ہے تاکہ وہ انکوائری کے دوران اپنے نقطہ نظر کو آرام سے پیش کرسکیں۔

یو اے ایف کے ترجمان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ یہ واقعہ مبینہ طور پر یکم اور 2 مارچ کو پیش آیا تو مشتبہ شخص کے خلاف کارروائی میں تاخیر کیوں کی گئی، کمیٹی کب اپنی رپورٹ جمع کرائے گی اور کیا مشتبہ شخص کو سزا ہوسکتی ہے؟ تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں