تحقیقات کے دوران اساتذہ کی بھرتیوں میں خامیوں کا انکشاف

اپ ڈیٹ 22 مارچ 2021
پرائمری اسکول ٹیچر کی بھرتی کے لیے این ٹی ایس کے ٹیسٹ میں متعدد اضلاع میں پرچے لیک ہونے پر وزیر اعلی نے انکوائری کا حکم دیا تھا۔  فائل فوٹو:ڈان نیوز
پرائمری اسکول ٹیچر کی بھرتی کے لیے این ٹی ایس کے ٹیسٹ میں متعدد اضلاع میں پرچے لیک ہونے پر وزیر اعلی نے انکوائری کا حکم دیا تھا۔ فائل فوٹو:ڈان نیوز

پشاور: ایک اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی نے خیبرپختونخوا میں نجی ٹیسٹنگ ایجنسیز کے ذریعے اساتذہ کی بھرتیوں کے عمل میں متعدد خامیوں اور قواعد کی خلاف ورزی کا سراغ لگا لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی انسپیکشن ٹیم کی جانب سے کی جانے والی انکوائری میں انکشاف ہوا ہے کہ ایلمنٹری اور سیکنڈری تعلیم کے محکمے نے تقرریوں، پروموشنز اور ٹرانسفر (اے پی ٹی) رولز 1989 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کے تقرر کے لیے اسکریننگ ٹیسٹ کا معاہدہ کیا۔

نیشنل ٹیسٹینگ ایجنسی کی جانب سے صوبے بھر میں پرائمری اسکول ٹیچر (پی ایس ٹی) کی بھرتی کے لیے کیے گئے اسکریننگ ٹیسٹ میں متعدد اضلاع میں پرچے لیک ہونے کے بعد ٹیم نے وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر انکوائری کی تھی۔

انکوائری کی روشنی میں صوبائی حکومت نے 16 مارچ کو اسکریننگ ٹیسٹ منسوخ کردیے جو 7 فروری کو ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: این ٹی ایس ٹیسٹ دینے پشاور آنے والا طالب علم مبینہ پولیس فائرنگ سےجاں بحق

پی آئی ٹی نے اپنی 33 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اسکریننگ ٹیسٹ سے قبل پرچے لیک ہونے کی تصدیق کی کیونکہ ضلعی انتظامیہ اور کئی اضلاع کے محکمہ تعلیم کے عہدیداروں نے بتایا ہے کہ حل شدہ جوابات کے ساتھ امیدوار پکڑے گئے تھے۔

پی آئی ٹی نے اساتذہ کے لیے محکمہ تعلیم کی بھرتی کی پالیسی کو نام نہاد، ناقابل فہم اور کاروبار کے قواعد کی خلاف ورزی قرار دیا کیونکہ اسے صوبائی کابینہ نے منظور نہیں کیا اور نہ ہی اسے اے پی ٹی رولز 1989 سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ انتخاب کے غیر منظور شدہ معیار میں بھی این ٹی ایس ٹیسٹ کو اسکریننگ ٹیسٹ کے طور پر بیان کیا گیا تھا اور اسے اسکریننگ کے مقصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا۔

اس کے برعکس امتحان کے نمبروں کو حتمی میرٹ لسٹ کی تیاری کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اساتذہ کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے سب سے اچھا طریقہ کیا؟

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ 'دو گھنٹے کے این ٹی ایس ٹیسٹ میں 20 سال سے زیادہ کے تعلیمی کیریئر کے برابر امتحان لیا گیا، یہ فطری انصاف کے منافی ہے'۔

اپنی تحقیقات میں انکوائری کمیٹی نے کہا کہ ٹیسٹنگ ایجنسی کا امیدواروں کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس نے مزید کہا کہ ٹیسٹنگ ایجنسی سے امتحان کے نتائج حاصل کرنے کے بعد متعلقہ سرکاری محکمے میرٹ کی فہرست مرتب کرنے کے لیے امیدواروں کے تعلیمی ریکارڈ کو استعمال کرسکتے تھے۔

مزید یہ کہ جانچ کے عمل کی نگرانی کے لیے کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھا اور معاہدے میں پرچے لیک ہونے کی صورت میں کسی بھی قسم کی کوئی شق کا ذکر نہیں کیا گیا تھا نیز محکمہ خزانہ کی منظوری کے بغیر ٹیسٹنگ ایجنسی کے بینک اکاؤنٹ میں شامل ہونے کے مالی انتظامات قواعد کے تحت نہیں تھے۔

پی آئی ٹی نے حکومت کو سفارش کی ہے کہ محکمہ تعلیم کو ہدایت کی جاسکتی ہے کہ وہ معاہدے کے مطابق متعلقہ ٹیسٹنگ ایجنسی / سروس فراہم کرنے والے اور متعلقہ قانون کے تحت محکمہ تعلیم سے وابستہ عملے کے کردار کی جانچ کرے اور اس کے مطابق ضروری کارروائی کرے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں اساتذہ اور تعلیم کیوں پیچھے ہے؟ آئیے بتاتے ہیں

پی آئی ٹی کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ 'اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ صوبائی حکومت بھرتی کی پالیسی تشکیل دیتے وقت بالترتیب 20:80 کے تعلیمی نمبروں کے مقابلے میں ٹیسٹ کے وزن پر خصوصی توجہ دے'۔

تاہم وزیر ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن شہرام خان ترکئی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے پی آئی ٹی کے چند مشاہدات سے اتفاق نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی ٹی کو اس بات کی تصدیق کرنے کا کام سونپا گیا تھا کہ پیپرز لیک ہوئے ہیں یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی آئی ٹی کو محکمہ تعلیم کی بھرتی کی پالیسی اور ٹیسٹنگ ایجنسیز کے ساتھ اس کے معاہدے کے بارے میں بات کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

وزیر نے کہا کہ پی آئی ٹی پرچوں کے لیک ہونے کے بارے میں استفسار کرتے ہوئے اپنی شرائط سے بالاتر ہوچکا ہے، تحقیقات میں ان (پی آئی ٹی ممبران) کو دوسری چیزوں پر تبادلہ خیال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم اس معاملے پر تفصیلی جواب تیار کرنے پر کام کر رہا ہے جو متعلقہ حکام کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔

جب سوال کیا گیا کہ متعدد اضلاع میں کسی کو بھی پرچے لیک ہونے پر سزا کیوں نہیں دی گئی ہے؟ تو وزیر نے کہا کہ این ٹی ایس کے لیے یہ سزا ہے کہ وہ اسکریننگ ٹیسٹ دوبارہ کروائے گا جس کی لاگت لاکھوں میں ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں