خواجہ آصف کی لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

اپ ڈیٹ 27 مارچ 2021
خواجہ آصف کو گزشتہ برس دسمبر میں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
خواجہ آصف کو گزشتہ برس دسمبر میں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

مسلم لیگ (ن) کے زیر حراست رہنما خواجہ آصف کی منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں ضمانت کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی گئی۔

جسٹس سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ پیر کو درخواست ضمانت پر سماعت کرے گا۔

عدالت عالیہ میں خواجہ آصف نے ضمانت کی درخواست اپنے وکیل حیدر رسول مرزا کی وساطت سے دائر کی، انہیں گزشتہ برس دسمبر کے اواخر میں اسلام آباد سے گرفتار کر کے نیب لاہور منتقل کردیا گیا تھا۔

ضمانت کے لیے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ درخواست گزار قومی اسمبلی ایک سینیئر رکن اور سیالکوٹ حلقہ این اے 73 کے عوام کی ترجمانی کرتے ہیں ساتھ ہی ایوانِ زیریں میں اپنی جماعت کے پارلیمانی رہنما بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:خواجہ آصف کا جیل میں سہولیات کیلئے احتساب عدالت سے رجوع

درخواست میں کہا گیا کہ سال 2017 میں سیاسی حریف عثمان ڈار نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر کے مجھ پر الزام لگایا کہ پاکستان میں ایک عوامی عہدے پر فائز رہتے وقت میرے پاس اقامہ بھی تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاملے زیر سماعت تھا، اسی دوران عثمان ڈار نے چیئرمین نیب کے پاس بھی انہی الزامات پر مشتمل درخواست دائر کی۔

درخواست میں کہا گیا کہ اپریل 2018 میں ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو نااہل قرار دیا جس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا اور عدالت عظمیٰ نے وہ درخواست قبول کرلی۔

درخواست میں کہا گیا کہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں حل ہوجانے کے باوجود نیب لاہور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے سیاسی حریف کی درخواست پر انکوائری شروع کی۔

مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس: خواجہ آصف کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ نیب کے تمام نوٹسز پر عمل کرتے ہوئے تفصیلی جواب جمع کروایا گیا اور 2 سال کی انکوائری کے باوجود نیب ان کے خلاف کیس بنانے میں ناکام رہا۔

بعدازاں بغیر کسی جواز کے نیب راولپنڈی میں انکوائری ختم کرتے ہوئے نیب لاہور میں نئی انکوائری شروع کردی گئی تاہم یہاں بھی درخواست گزار نے ہر نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کروایا۔

تاہم نیب نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ میں 29 دسمبر کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ نیب کو کیس کا ریکارڈ پہلے ہی فراہم کر چکا ہوں، نیب نے انکوائری کے شکایت کنندہ کا کوئی ریکارڈ بھی احتساب عدالت میں پیش نہیں کیا، احتساب عدالت کے جج نے بھی نیب کے پاس تمام متعلقہ ریکارڈ ہونے کی آبزرویشن دی، الیکشن کمشن اور ایف بی آر کے پاس بھی اثاثوں کی تمام تفصیلات موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس: خواجہ آصف 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل

درخواست میں رہنما مسلم لیگ (ن) نے استدعا کی ان کے پاس سے کچھ ایسا برآمد نہیں ہوا جو ان کی گرفتاری کی بنیاد کے کرپشن الزام سے منسلک ہوسکے، چنانچہ ان کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کی جائے۔

خواجہ آصف کی گرفتاری

مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کو قومی احتساب بیورو نے 29 دسمبر 2020 کی رات گرفتار کیا تھا اور اگلے ہی روز راولپنڈی کی احتساب عدالت میں پیش کر کے ان کا ایک روزہ راہداری ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد انہیں نیب لاہور منتقل کردیا تھا۔

نیب کی جانب سے جاری کردہ خواجہ آصف کی تفصیلی چارج شیٹ کے مطابق وہ نیب آرڈیننس 1999 کی شق 4 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کی دفعہ 3 کے تحت رہنما مسلم لیگ (ن) کے خلاف تفتیش کررہے تھے۔

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عوامی عہدہ رکھنے سے قبل 1991 میں خواجہ آصف کے مجموعی اثاثہ جات 51 لاکھ روپے پر مشتمل تھے تاہم 2018 تک مختلف عہدوں پر رہنے کے بعد ان کے اثاثہ جات 22 کروڑ 10 لاکھ روپے تک پہنچ گئے جو ان کی ظاہری آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔

مزید پڑھیں: خواجہ آصف نے اپنے قائد کی طرح ٹی ٹی کا طریقہ کار اپنایا، شہزاد اکبر

انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف نے یو اے ای کی ایک فرم بنام M/S IMECO میں ملازمت سے 13 کروڑ روپے حاصل کرنے کا دعوی کیا تاہم دوران تفتیش وہ بطور تنخواہ اس رقم کے حصول کا کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم نے جعلی ذرائع آمدن سے اپنی حاصل شدہ رقم کو ثابت کرنا چاہا۔

احتساب کے ادارے کے مطابق ملزم خواجہ آصف اپنے ملازم طارق میر کے نام پر ایک بے نامی کمپنی بنام ’طارق میر اینڈ کمپنی‘ بھی چلا رہے ہیں جس کے بینک اکاؤنٹ میں 40 کروڑ کی خطیر رقم جمع کروائی گئی، اگرچہ اس رقم کے کوئی خاطر خواہ ذرائع بھی ثابت نہیں کیے گئے۔

نیب نے کہا کہ نیب انکوائری کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا خواجہ آصف کی ظاہر کردہ بیرونی آمدن آیا درست ہے یا نہیں اور انکوائری میں ظاہر ہوا کہ مبینہ بیرون ملک ملازمت کے دورانیہ میں ملزم خواجہ آصف پاکستان میں ہی تھے جبکہ بیرون ملک ملازمت کے کاغذات محض جعلی ذرائع آمدن بتانے کے لیے ہی ظاہر کیے گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں