ڈسکہ کے 'لاپتا' الیکشن عہدیداران سے متعلق جیو فینسگ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

اپ ڈیٹ 01 اپريل 2021
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حلقے میں 10 اپریل کو دوبارہ ضمنی انتخاب سے روک دیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حلقے میں 10 اپریل کو دوبارہ ضمنی انتخاب سے روک دیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: متنازع ڈسکہ الیکشن کیس کی سماعت سے ایک روز قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں ایک جیو فینسنگ رپورٹ جمع کروادی۔

رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ 20 پریزائیڈنگ افسران نے 19 فروری کو پولنگ ختم ہونے کے بعد ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچنے کے لیے ایک مختلف راستہ اختیار کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی اُمیدوار علی اسجد ملہی کی درخواست کی سماعت کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا ڈسکہ الیکشن ملتوی کرنے کا حکم

25 مارچ کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حلقے میں 10 اپریل کو دوبارہ ضمنی انتخاب سے روک دیا تھا۔

حالیہ رپورٹ میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ 20 پریزائیڈنگ افسران کی اچانک گمشدگی کے بعد کمیشن نے 20 فروری کی رات 2 بجے پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے ان کے موبائل فونز کی لوکیشن کے فٹ پرنٹس لیے۔

جن میں سے 10 پریزائیڈنگ افسران کی لوکیشن ایک ہی مشکوک جگہ پائی گئی، انہوں نے ایک متبادل راستہ اختیار کیا جو اسکیم کے مطابق مخصوص دفتر پہنچنے کے لیے مشتبہ طور پر طویل تھا۔

تاہم رپورٹ پریزائیڈنگ افسران کی درست لوکیشن کے بارے میں خاموش ہے، جو ای سی پی کے دعوے کے مطابق بیلٹ پیپر والے پولنگ بیگز کے ہمراہ غائب ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب ہر صورت ہوگا، سپریم کورٹ

اسکیم کے مطابق پریزائیڈنگ افسران کو الیکشن کمیشن کے موبائل فون چینل کے ساتھ رجسٹرڈ ہونا تھا جو ریٹرننگ افسر نے بنایا تھا، الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 13(2) کے مطابق ہر پریزائیڈنگ افسر کو فارم 45 تیار کر کے اس کی تصویر لے کر الیکٹرانک طریقے سے ای سی پی کے موبائل فون چینل پر بھیجنا ہوتا ہے۔

ای سی پی نے پی ٹی کو 20 پریزائیڈنگ افسران کے فون نمبر دے کر کے ان کا کال ریکارڈ فراہم کرنے کو کہا تھا، کمیشن نے عدالت میں استدعا کی کہ اپیل کی سماعت کے دوران صرف تنازع کا تعین کرنے لیے حالیہ رپورٹ انتہائی اہم ہے۔

خیال رہے کہ الیکش کمیشن نے 19 فروری کو ہوئے الیکشن کے نتائج مشکوک ہونے پر مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار کی درخواست پر 18 مارچ کو پورے حلقے میں دوبارہ ضمنی انتخاب کا حکم دیا تھا جس بعد میں ری شیڈول کر کے 10 اپریل کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈسکہ انتخاب: سپریم کورٹ نے فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی

الیکشن کمیشن نے پی ٹی اے کے چیئرمین میجرل جنرل (ر) عامر عظیم باجوہ کو 26 فروری کو 20 پریزائیڈنگ افسران کی تفصیلات فراہم کرنے کا خط ارسال کیا تھا جس میں 19 فروری رات 8 بجے سے 20 فروری صبح 7 بجے تک ان کے موبائل فون نمبر سے لوکیشن اور ٹریکنگ شامل تھی، جس پر پی ٹی اے نے کمیشن کو ان کی لوکیشن فراہم کردی تھی۔

ڈسکہ ضمنی انتخاب

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 75 (سیالکوٹ فور) میں ضمنی انتخاب میں نتائج میں غیر ضروری تاخیر اور عملے کے لاپتا ہونے پر 20 پولنگ اسٹیشن کے نتائج میں ردو بدل کے خدشے کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے متعلقہ افسران کو غیرحتمی نتیجے کے اعلان سے روک دیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی کے الزامات عائد کر کے دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا تھا جس پر وزیراعظم عمران خاں نے ڈسکہ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-75 پر ہوئے ضمنی انتخاب میں مبینہ دھاندلی کے الزامات پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اُمیدوار سے 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دینے کا کہا تھا۔

جس پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بناتے ہوئے این اے 75 ڈسکہ کا ضمنی الیکشن کالعدم قرار دیا اور 18 مارچ کو حلقے میں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا تھا۔

جس پر اس ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والے پی ٹی آئی)کے امیدوار علی اسجد ملہی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

درخواست میں انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ الیکشن کمیشن نے صورتحال اور حقائق کو بالکل فراموش کرتے ہوئے فیصلہ کیا جو 'واضح طور پر غیر منصفانہ اور غیر قانونی' ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے دستیاب ریکارڈ کا درست جائزہ نہیں لیا، حلقے میں دوبارہ انتخابات کا کوئی جواز نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں