کمشنر کراچی ربڑ اسٹیمپ ہے، چیف جسٹس کا تجاوزات کیس میں اظہار برہمی

اپ ڈیٹ 08 اپريل 2021
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایس بی سی اے نے تو سب سے زیادہ گھپلے کیے ہیں — فائل فوٹو
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایس بی سی اے نے تو سب سے زیادہ گھپلے کیے ہیں — فائل فوٹو

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے تجاوزات کیس میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمشنر کراچی ربڑ اسٹیمپ ہے جنہیں معلوم ہی نہیں کراچی کیسے چل رہا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کراچی رجسٹری میں تجاوزات کیس پر سماعت کی۔

ہل پارک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہل پارک کا کیا ہوا؟

متاثرین کے وکیل نے مؤقف دیا کہ معاوضے کے حوالے سے عدالت نے مہلت دی تھی جبکہ کمشنر کراچی نے کہا کہ کچھ مکینوں نے نظر ثانی کی درخواست دائر کی ہے، عدالتی حکم پر 'کریک سائیڈ مال' بھی سیِل کردیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں جگہ نہیں لوں گا تو کیسے معلوم ہوگا قانونی ہے یا نہیں؟ میں اتنا بچہ تو نہیں کہ کوئی بھی زمین خرید لوں؟

عدالت نے ہل پارک تجاوزات کیس میں مکینوں کی فریقین بننے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کمشنر کراچی کو کارروائی جاری رکھنے کا حکم دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں تجاوزات کا معاملہ: سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر وزیراعلیٰ سندھ پیش

شاہراہ قائدین تجاوزات کیس

علاوہ ازیں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شاہراہ قائدین تجاوزات کیس کی سماعت ہوئی، جس میں کمشنر کراچی نے کہا کہ شاہراہ قائدین اور شاہراہ فیصل کے سنگم پر نسلہ ٹاور کی انسپیکشن ہوگئی، ایس بی سی اے کی رپورٹ کے مطابق عمارت نالے پر نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے خود کیوں انکوائری نہیں کی؟ ایس بی سی اے نے تو سب سے زیادہ گھپلے کیے ہیں، ایس بی سی اے والے معلوم ہے کون ہیں؟ ان ہی لوگوں نے سب بنایا ہے اور بنوایا ہے، پی ای سی ایچ ایس میں کوئی پلاٹ خالی نہیں تھا یہ کہاں سے آگیا؟

ڈی جی ایس بی سی اے نے مؤقف اپنایا کہ روڈ کی ری الاٹنمنٹ ہوئی تھی جس میں یہ زمین سامنے آئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو اس کو بیچ دیں گے؟ کیا کر رہے ہیں آپ لوگ؟ یہ ایس بی سی اے کا کیا دھرا ہے، کل سپریم کورٹ بھی الاٹ کر دیں گے، آپ لوگ تو کل وزیر اعلیٰ ہاؤس بھی الاٹ کر دیں گے، کوئی ٹائٹل دکھا دے، کیا تماشہ لگایا ہوا ہے آپ لوگوں نے؟ کتنے منصوبے منظوری کے لیے زیر غور ہیں؟

ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا کہ ہمارے پاس 319 منصوبوں کی درخواستیں ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ مولانا صاحب کو سامنے لا کر کھڑا کردیا ہے اصل آدمی تو کوئی اور ہے، ریونیو، سب رجسٹرار آفس اور ایس بی سی اے ایسی جگہ ہیں جہاں سب سے زیادہ مال آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نسلہ ٹاور غیر قانونی بنا ہوا ہے، بلڈر تو غائب ہے نہیں آتا، بلڈر نے ان لوگوں کو سامنے کھڑا کیا ہوا ہے اور رپورٹ بھی اپنے حق میں بنوالی، پچاس سال پرانا علاقہ جہاں کوئی پلاٹ خالی نہیں ہے یہ پلاٹ نکال دیا گیا۔

عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم پلاٹ کی الاٹمنٹ منسوخ کر رہے ہیں آپ عمارت گرادیں۔

مزید پڑھیں: نالوں کے ساتھ انسداد تجاوزات مہم سے متاثرہ افراد پناہ کے منتظر

کمشنر کراچی کی سرزنش

بعد ازاں ایک کیس میں چیف جسٹس نے اطمینان بخش جواب نہ دینے پر کمشنر کراچی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ان کو معلوم ہی نہیں کراچی کیسے چل رہا ہے، کیا نظام آپریٹ کر رہا ہے، ان کو معلوم نہیں ریونیو کے کتنے کیسز بنیں گے ان پر، یہ تو ربر اسٹیمپ کمشنر ہے۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان مولانا صاحب (ڈی جی ایس بی سی اے) کو بھی نہیں معلوم کتنے نیب کیسز بنیں گے ان پر، ہمارے لیے اتنی مشکلات ہو رہی ہیں تو عام لوگوں کا کیا حال ہوگا؟

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کی رپورٹ بھی دیکھ لی ہم نے، انہوں نے کہا کہ سیاسی وجوہات پر یہ چیزیں ان پر ڈال دی گئیں، کام کی باتیں تو بہت کم کیں لیکن رپورٹ میں غیر ضروری باتیں ہیں، یہ بھی نہیں بتایا شہر کو کیسے ٹھیک کریں گے؟

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ وسیم اختر نے الزامات لگائے تھے ان کا جواب دیا تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چھوڑیں سیاسی باتیں وسیم اختر نے کیا کہا اور کیا نہیں۔

کراچی سرکلر ریلوے

کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کمشنر کراچی نے بتایا کہ کے سی آر کا ٹریک ریلوے حکام کے حوالے کردیا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ تمام تجاوزات کا خاتمہ ہوگیا ہے؟

کمشنر کراچی نے بتایا کہ کراچی سٹی سے اورنگی تک تجاوزات ختم کردی ہیں، کراچی سٹی اسٹیشن سے اورنگی تک ٹرین چل رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں، لگتا ہے سندھ اور مقامی حکومت کی شہریوں سے دشمنی ہے'

سیکریٹری ریلوے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کراچی سرکلر پِپری سے ڈرگ روڈ تک اور ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک چل رہی ہے، سرکلر ریلوے 9 اسٹیشنز تک چلا دی ہے، گرین لائن کی وجہ سے 16 کلو میٹر کا ٹریک مکمل ہونا ہے۔

سیکریٹری ٹرانسپورٹ نے کہا کہ گرین لائن کی وجہ سے 12 مقامات پر پُل، 11 انڈر پاسز اور ایک فلائی اور بنانا ہے۔

سیکریٹری ریلوے نے بتایا کہ اورہیڈ برج اور انڈر پاسز کے لیے حکومت سندھ نے ایف ڈبلیو او کو ڈھائی روپے دے دیے ہیں۔

ایف ڈبلیو او کے نمائندے نے کہا کہ ہمیں ابھی تک کوئی کنٹریکٹ نہیں ملا، ابھی انڈر پاسز اور اورہیڈ برجز کا اسٹرکچر اور ڈیزائن بنانا ہے۔

سیکریٹری ٹرانسپورٹ نے بتایا کہ 10 اپریل کو ایف ڈبلیو اور سندھ حکومت کی میٹنگ ہونی ہے، کابینہ نے اورہیڈ برجز اور انڈر پاسز بنانے کی منظوری دے دی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایف ڈبلیو او کو پیسے بنانے کے لیے کام نہیں دیا گیا ہے، یہ مفاد عامہ کا منصوبہ ہے، کب تک مکمل ہوگا پھر یہ کام؟

ایف ڈبلیو او نمائندے نے کہا کہ 9 ماہ میں کام مکمل ہوجائے گا۔

عدالت نے ایف ڈبلیو او سے استفسار کیا کہ کون کون سے منصوبے کیے ہیں آپ نے روڈ بنانے کے علاوہ، جس پر نمائندے نے بتایا کہ روڈ کے علاوہ ریلوے کے منصوبے بھی کیے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو خانیوال کا پروجیکٹ ملا تھا وہ 9 سال سے مکمل نہیں ہوا، پتا چلا ہے کہ آپ کو کام نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ ان کو کوئی کام نہیں آتا۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر کراچی سرکلر ریلوے سے متعلق پیش رفت رپورٹ طلب کرلی جبکہ حکومت سندھ کو ریلوے ٹریک کے لیے فنسنگ لگانے کی ہدایت بھی کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 09, 2021 01:02pm
شہر بھر میں نالوں پر تجاوزات صرف غریبوں نے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے اداروں نے پارکنگ کے نام پر نالے قبضہ کر رکھے ہیں۔ اسی طرح ٹھیلا اور پتھارا مافیا بھی تجاوزات قائم کرنے میں ملوث ہے۔ بہت سے دوسروں کا حق مار کر 4،4 ریڑھیاں کھڑی کردیتے ہیں۔ دوسری جانب پارکنگ مافیاکی تجاوزات سے تمام شہری بہت زیادہ تنگ ہیں۔ کوئی بھی ہاتھ میں رسید پکڑ کر 20 سے 100 روپے وصول کرنے آجاتا ہے اگر پارکنگ کی الیکٹرونک رسید دی جائے تو حکومت کو بے تحاشا آمدنی ہوسکتی ہے اور اس مافیا کا خاتمہ ممکن ہے۔