مہینہ پہلے، کراچی ایڈیٹرز کلب نے دعوت دی کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جو صحافی صاحبِ کتاب ہیں، وہ اپنی کتاب صدرِ مملکت کو پیش کرسکتے ہیں۔

شاعرِ عوام حبیب جالبؔ کی مزاحمتی شاعری بھلے ساری دنیا میں کتنی ہی مقبول ہو، مگر ہمارے نقادانِ ادب تعصب کی حد تک انہیں نظر انداز کرتے رہے۔ سو، ان کی شخصیت اور شاعری پر شاید ہی کوئی کتاب لکھی گئی ہو۔ ہاں، ان کے مجموعہ ہائے کلام اور 'جالبؔ بیتی' ضرور شائع ہوتی رہی ہیں۔

سال 2014ء میں ہم نے 'جالبؔ جالبؔ' کے نام سے ایک کتاب گھسیٹی تھی۔ ملکوں ملکوں جو سفر کیا، تو اسے ساتھ لیتے گئے۔ ڈالروں میں جو یافت ہوتی اس سے اگلا ایڈیشن آجاتا۔ ابھی مہینے بھر پہلے اس کا 7واں ایڈیشن شائع ہوا ہے، سوچا کہ اسے جب صدرِ مملکت کو پیش کیا جائے گا تو تصویر کے ساتھ خبر چلے گی۔ جس سے کتاب کی فروخت بھی بڑھے گی اور ہاں، یافت بھی۔

کراچی ایڈیٹرز کلب  نے کچھ دن پہلے صدر ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کا اہتمام کیا— کے ای سی فیس بک پیج
کراچی ایڈیٹرز کلب نے کچھ دن پہلے صدر ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کا اہتمام کیا— کے ای سی فیس بک پیج

ساری تمہید باندھنے کے بعد اس مصرعے کو سُرخی بنانے کی طرف آتا ہوں کہ جب ایڈیٹرز کلب کے سیکرٹری نے ہمارا تعارف کرواتے ہوئے صدر علوی سے کہا کہ یہ اپنی کتاب 'جالبؔ جالبؔ' پیش کریں گے تو اسے بہرحال صدر صاحب کی بڑائی ہی کہا جائے گا کہ انہوں نے بھری محفل میں اس بات کا اظہار کیا کہ جب 2002ء میں پہلا نجی چینل آیا تو اس کے پروگرام 'مجاہد آن لائن' میں شرکت کے لیے مجاہد صاحب درخواستیں کیا کرتے تھے۔

بہرحال ملک کا ایک صدر، ایک صحافی کو یہ اعزاز دے تو اس کا اعتراف کرنا صحافتی آداب میں بھی شامل ہے اور ہماری تہذیب میں بھی۔

صدر عارف علوی سے آخری ملاقات جولائی 2018ء کے انتخابات سے 3 دن پہلے ہوئی تھی۔ کیمرا مین سمیت ہم اس لینڈ کروزر میں بیٹھنے میں کامیاب ہوگئے تھے جس میں آج کے گورنر سندھ، 2 وفاقی وزرا اور وزیرِاعظم عمران خان ٹھسے بیٹھے تھے جبکہ صدر عارف علوی ڈرائیونگ سیٹ پر تھے ہی۔

لکھاری صدر عارف علوی کو کتاب پیش کرتے ہوئے— کے ای سی فیس بک پیج
لکھاری صدر عارف علوی کو کتاب پیش کرتے ہوئے— کے ای سی فیس بک پیج

اقتدار میں آنے کے بعد صدرِ محترم سے ایک دو بار دُور دُور سے سلام دعا ہوئی۔ صدر بننے کے مہینے بعد میں فضائی سفر میں ان کا ہمسفر تھا۔ یقیناً، وہ سب سے آگے والی نشست پر بیٹھے تھے۔ جہاز کی پرواز جیسے ہی ہموار ہوئی تو دیکھا کہ ہمارے صدر عارف علوی اپنی نشست سے اٹھ کر ایک، ایک سیٹ پر جاکر عام مسافروں سے سلام دعا کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ کوئی 20 منٹ تک جاری رہا کہ آخری نشست تک بغیر کسی پروٹوکول اور سیکیورٹی کے انہوں نے جو تاثر چھوڑا، اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا تھا۔

مگر اب جو کوئی سوا 2 سال بعد گورنر ہاؤس میں صدر صاحب کو دیکھا تو لگا کہ صدر صاحب کی آمد و رفت میں پروٹوکول غالب آچکا ہے۔ ایک ہلکا سا شور اٹھا۔ ایک بھاری بھرکم آواز آئی، 'خواتین و حضرات، صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی تشریف لا رہے ہیں'۔

میرا قطعی ارادہ نہیں کہ اس میں مزید کچھ مضمون باندھوں، مگر ہاں، صدر عارف علوی کے ساتھ ماضی کے تمام صدور یاد آگئے۔

1973ء کے آئین کے تحت بھٹو صاحب وزیرِاعظم بنے تو صدارت کا قرعہ فال گجرات کے ایک معصوم، بھلے چوہدری فضل الٰہی کے نام نکلا۔ اکثر دیکھا اور سنا کہ وہ خود چل کر وزیرِاعظم ہاؤس پہنچ جاتے۔ پھر آخری دنوں میں جب بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلی تو کسی منچلے نے ایوانِ صدر کی دیوار پر سیاہ روشنائی سے یہ لکھ دیا کہ ’صدر فضل الٰہی کو رہا کرو!‘

بھٹو صاحب کے بعد پھر جو مطلق العنان فوجی حکمراں، جنرل ضیاالحق آیا انہوں نے تو صدارت کے ساتھ ساری ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں۔ محمد خان جونیجو وزیرِاعظم بنے اور ذرا انہوں نے ہاتھ پیر نکالنے شروع کیے تو ایک دن اس طرح نکالے گئے کہ جاپان کے سفر سے واپسی کے بعد ایئرپورٹ پر پریس کانفرنس کررہے تھے کہ کسی نے کان میں کہا 'مسٹر پی ایم، آپ برطرف کردیے گئے ہیں'۔

ہمارے جونیجو صاحب کا بڑی گمنامی اور کسمپرسی میں انتقال ہوا۔

جنرل ضیاالحق کے بعد اسلام آباد میں سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ بڑی مضبوط ہوچکی تھی۔ جس کے نمائندہ صدر غلام اسحٰق خان تھے۔ اتنے طاقتور کہ اپنے دونوں وزرائے اعظم یعنی نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو گھر بھیج دیا۔

جنرل مشرف نے اپنا سفر وہیں سے شروع کیا جہاں جنرل ضیاالحق کے دور کا خاتمہ ہوا تھا۔ 2002ء کے بعد مشرف دور میں ایک بار پھر وزرائے اعظم ان کے ہاتھ کی چھڑی تھے۔ مگر 2008ء اور 2013ء میں ایک بار پھر وزیرِاعظم کے عہدے کا وقار بحال ہوا۔ میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی یقیناً ایک بااختیار وزیرِاعظم تھے۔ ان کے مقابلے میں صدر رفیق تارڑ اور ہمارے ممنون حسین کی حیثیت پیپلزپارٹی کے چوہدری فضل الٰہی جیسی تھی۔

یہ لیجیے، بھٹکتا ہوا کتنا آگے نکل گیا۔

اب جو گورنر ہاؤس میں صدر صاحب سے بے تکلفانہ گفتگو کا موقع ملا تو شاعرِ عوام حبیب جالبؔ کی وہ نسبتاً غیر معروف نظم یاد آگئی کہ جب 1980ء میں کراچی پریس کلب میں جالبؔ صاحب نے یہ نظم پڑھی تو داد و تحسین اور تالیوں سے شامیانہ اُڑا جارہا تھا۔ اسی تقریب میں جالبؔ صاحب نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم

ظلمت کو ضیاء

صرصر کو صبا

بندے کو خدا کیا لکھنا

بھی سنائی تھی۔ سو، صدرِ مملکت کے گوش گزار گورنر ہاؤس میں جب ہم نے یہ نظم سنائی کہ 'میں واللہ صدرِ پاکستان ہوتا' تو ہمارے صدر ڈاکٹر علوی ہر ہر مصرعے پر داد دے رہے تھے اور آخری مصرعے پر کہا، 'بھئی میری صرف کراچی میں زمین ہے'۔

تو لیجیے، شاعرِ عوام حبیب جالبؔ کی یہ نظم جس پر صدرِ مملکت کو داد دیتے، ہنستے دیکھ کر بڑا لطف آرہا تھا۔

فرنگی کا جو میں دربان ہوتا

تو جینا کس قدر آسان ہوتا

میرے بچے بھی امریکا میں پڑھتے

میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا

میری انگلش بلا کی چست ہوتی

بلا سے میں جو اردو داں نہ ہوتا

جھکا کے سر کو ہوجاتا جو سر میں

تو لیڈر بھی عظیم الشان ہوتا

زمینیں میری ہر صوبے میں ہوتیں

میں واللہ صدرِ پاکستان ہوتا

تقریب کی صدارت ممتاز ترقی پسند ادیب مرحوم سید سبطِ حسن کررہے تھے۔ سید صاحب نے نظم کے اختتام پر کہا، 'جالبؔ، ایک قافیہ رہ گیا۔۔۔ کھوتا'

حبیب جالبؔ — اظہر جعفری
حبیب جالبؔ — اظہر جعفری

تصور میں لائیں، جنرل ضیاالحق کی فوجی آمریت کا عین شباب، اس پر جالبؔ صاحب کی نظم۔ پریس کلب کے ٹیرس پر بیٹھے ہزاروں سامعین نے کیسی بے پناہ داد دی ہوگی۔

تبصرے (2) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Apr 15, 2021 11:41pm
بہت اچھا مضمون۔ ’جالب جالب‘ یقیناً ایک دلچسپ کتاب ہوگی۔
MUBIN Apr 20, 2021 01:03pm
WAH JI URDU ZABAN KI CHSHNI....