لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی، جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں احاطہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا۔

صوبائی دارالحکومت لاہور کی عدالت عالیہ میں جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر نے شہباز شریف کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے اور منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی، دوران سماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر کی طرف سے ان کے وکلا امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ پیش ہوئے جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے فیصل بخاری اور عثمان راشد چیمہ دلائل کے لیے موجود تھے۔

اس کے علاوہ عدالت میں شہباز شریف خود بھی ذاتی حیثیت میں موجود تھے جبکہ ان کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

سماعت کا آغاز ہوا تو شہباز شریف کے وکلا نے اپنے دلائل دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور سابق وزیراعلیٰ کی کارکردگی سے متعلق شائع شدہ رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

مزید پڑھیں: عمران خان کے حکم پر نیب نے شہباز شریف کو گرفتار کیا، مریم اورنگزیب

شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ان کے مؤکل نے آج تک کوئی ٹی اے ڈی اے یا سیلری نہیں لی، اورنج لائن ٹرین میں بھی شہباز شریف نے 81 ارب روپے بچائے، اس کے علاوہ ٹیکسی پروجیکٹ میں مسلم لیگ (ن) کے صدر نے 40 کروڑ روپے کی خالص بچت کی۔

ریفرنس دائر ہونے کے بعد گرفتاری نہیں ہوسکتی، وکیل شہباز شریف

اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف نے سیف سٹی کیمروں کے منصوبے میں قوم کے 4 ارب روپے بچائے۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ مذکورہ معاملے پر ریفرنس دائر ہوچکا ہے، اس اسٹیج پر گرفتاری نہیں بنتی، نیب کی بدنیتی ہر جگہ نظر آرہی ہے۔

عدالت میں وکیل نے بتایا کہ ان کے مؤکل نے مجموعی طور پر ایک ہزار ارب روپے سے زائد کی قوم کی رقم بچائی ہے لہٰذا ان پر نیب کے کیسز بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔

اس موقع پر ان سے پوچھا گیا کہ کیا احتساب عدالت میں شہباز شریف پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ریفرنس کی کاپیاں فراہم ہوچکی ہیں، فرد جرم عائد ہونے والی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات آنے والے ہیں، حکومت تو چاہتی ہے کہ شہباز شریف جیل جائیں۔

دوران سماعت عدالت میں موجود شہباز شریف نے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، جس پر جسٹس سردار احمد نعیم نے ریمارکس دیے کہ آپ کے وکیل نے دلائل دینے ہیں، کچھ رہ جائے تو آپ بتائیے گا۔

جس پر شہباز شریف کے وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل پہلے ہی احتساب عدالت میں 2 ریفرنسز کا سامنا کر رہے ہیں۔

اس موقع پر شبہاز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ان کے مؤکل کے بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں، سپریم کورٹ نے زیر کفالت ہونے کے معاملے میں پاناما کیس میں تشریح کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی اہلیہ 2004 سے فائلر ہیں جبکہ سلمان شہباز اور حمزہ شہباز 1996 سے اور بیٹیاں جویریہ اور رابعہ بھی 2007 سے فائلر ہیں۔

امجد پرویز کے مطابق نیب کے منی لانڈرنگ کے 58 والیمز میں شہباز شریف کے خلاف ایک بھی دستاویزی ثبوت نہیں ہے جبکہ ایف بی آر، ایس ای سی پی، ریونیو سمیت کسی ادارے کے ریکارڈ کے مطابق شہباز شریف بے نامی دار نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: سالگرہ کے دن مریم نواز نے شہباز شریف کو پارٹی سے نکال دیا، شہزاد اکبر

ان کا کہنا تھا کہ کسی ایک شخص کا بھی 161 کا بیان صفحہ مثل پر موجود نہیں ہے، منی لانڈرنگ ریفرنس میں نیب نے 4 وعدہ معاف گواہ بنائے ہیں تاہم کسی ایک نے بھی شہباز شریف کے خلاف بیان نہیں دیا۔

نیب کے وکلا کے دلائل

بعد ازاں نیب کے وکلا فیصل بخاری اور عثمان جی راشد نے دلائل دینے کا آغاز کیا گیا اور بتایا کہ 23 اکتوبر 2018 کو نیب نے شہباز شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کیں۔

نیب وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کو آشیانہ کیس میں پہلے گرفتار کیا گیا تھا جبکہ 14 فروری 2019 کو شہباز شریف کو رمضان شوگر مل اور آشیانہ کیس میں ضمانت ملی، 15 جنوری 2019 کو شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی گئی، جس کے بعد 3 اپریل 2019 کو منی لانڈرنگ کی انکوائری کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 3 اپریل کو ہی شہباز شریف کے ساتھ شریک ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔

عدالت میں نیب وکیل نے بتایا کہ ادارے نے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا آغاز کیا جبکہ ایف ایم یو کی رپورٹ میں مشکوک ٹرانزیکشنز سامنے آئیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس معاملے میں ریفرنس دائر ہوچکا ہے لیکن پھر بھی شہباز شریف کی حراست ضروری ہے، ہم عدالت کو مطمئن کریں گے کہ ان کی حراست کیوں چاہیے۔

نیب وکیل کے مطابق اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں کہ ریفرنس دائر ہونے کے باوجود بھی گرفتاری ہوتی ہے۔

نیب کے وکیل کا مؤقف تھا کہ 1990 میں شہباز شریف کے اثاثے 21 لاکھ روپے تھے جبکہ اب شہباز شریف خاندان کے اثاثے اربوں میں جاچکے ہیں اور ایک ارب 57 کروڑ 90 لاکھ روپے کی بیرون ملک سے ترسیلات آئیں۔

انہوں نے کہا کہ 177 جعلی ٹی ٹیز اور 63 مشکوک ترسیلات شہباز شریف کے خاندان نے وصول کیں جبکہ شہباز شریف اور ان کے شریک ملزم مشتاق چینی نے 60 کروڑ 30 لاکھ روپے کا جعلی قرضہ حاصل کیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کا اپنا ایسا لمبا چوڑا کاروبار نہیں تھا پھر یہ پیسے کہاں سے آئے، شہباز شریف نے جلا وطنی میں بیرون ملک فلیٹس لیے یہ ایک الگ کہانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2008 سے 2018 تک شہباز شریف کے اثاثوں میں بے پناہ اضافہ ہوا، بیرون ملک سے پیسے بے نامی دار کے اکاؤنٹس میں آتے تھے اور آگے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے اکاؤنٹس میں جاتے تھے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ایک بار 49 لاکھ کی ٹی ٹی آئی جس سے ایک گاڑی کی کسٹم ڈیوٹی ادا کی گئی، شہباز شریف کے بچوں کی آمدنی اربوں میں کیسے آئی، اس کا جواب ان کے پاس نہیں، شہباز شریف کی اہلیہ اور بیٹوں کے نام پر بھی بیرون ملک سے ٹی ٹیز آئیں، ان کی اہلیہ نے ٹی ٹیز سے 96 ایچ ماڈل ٹاؤن پلاٹ خریدا۔

نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ بیرون ملک سے آئے پیسوں سے شہباز شریف نے اپنی دوسری اہلیہ تہمینہ درانی کو ڈیفنس میں گھر لے کر دیا، اس کے علاوہ نثار احمد اور علی احمد کے اکاؤنٹس میں مجموعی طور پر 23 ٹی ٹیز آئیں۔

انہوں نے کہا کہ 3 کمپنیز کے نام پر اکاؤنٹس کھلوائے گئے اور ان کے اکاؤنٹس سے پیسے شہباز شریف خاندان کو آرہے تھے، شہباز شریف نے اپنے کاروبار کے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ کب رجسٹر ہوا اور کتنی آمدن تھی۔

مزید پڑھیں: مرنے کے بعد بھی کرپشن ثابت ہوجائے تو قبر سے نکال کر لٹکا دیا جائے، شہباز شریف

عدالت میں نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے بیرون ملک 4 اپارٹمنٹس ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کے صدر ان اپارٹمنٹس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دے سکے کہ انہیں کہاں سے خریدا گیا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شہباز شریف نے 2 کروڑ روپے حمزہ شہباز کو تحفے میں بھی دیے۔

بعد ازاں شہباز شریف اور نیب کے وکلا کی جانب سے دلائل مکمل ہوئے، جس کے بعد عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت کو مسترد کردیا، جس پر نیب نے شہباز شریف کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا۔

منی لانڈرنگ ریفرنس

خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کی اہلیہ، دو بیٹوں، بیٹیوں اور دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

اس ریفرنس میں مجموعی طور پر 20 لوگوں کو نامزد کیا گیا جس میں 4 منظوری دینے والے یاسر مشتاق، محمد مشتاق، شاہد رفیق اور احمد محمود بھی شامل ہیں۔

تاہم مرکزی ملزمان میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت، ان کے بیٹے حمزہ شہباز (پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر)، سلمان شہباز (مفرور) اور ان کی بیٹیاں رابعہ عمران اور جویریہ علی ہیں۔

ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔

اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔

اس میں کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔

تبصرے (1) بند ہیں

محمد بشیر چوھدری Sep 28, 2020 05:42pm
اُڑنے کی جستجو ہے، نہ لڑنے کی آرزو شاھین میرے وقت کے گرگس نواز ہیں روٹی کے چار حرف سے آگے نہیں پڑھا دعوے مگر شعور کے قد سے دراز ہیں