گیس کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمینلز تعمیر کرنے والوں کے ساتھ تعاون کی ہدایت

اپ ڈیٹ 19 اپريل 2021
حکومت نے گیس کمپنیوں کو حکم دیا ہے کہ دو نئے ایل این جی ٹرمینلز کے ڈویلپرز کے ساتھ ہفتہ وار اجلاس کریں — فائل فوٹو
حکومت نے گیس کمپنیوں کو حکم دیا ہے کہ دو نئے ایل این جی ٹرمینلز کے ڈویلپرز کے ساتھ ہفتہ وار اجلاس کریں — فائل فوٹو

اسلام آباد: حکومت نے سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کو حکم دیا ہے کہ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے دو نئے لیکوئیفائڈ نیچرل گیس (ایل این جی) ٹرمینلز کے ڈیولپرز کے ساتھ ہفتہ وار اجلاس منعقد کریں اور پاکستان اسٹیل ملز کے قریب ٹائی ان سہولیات کے لیے اراضی کے قبضے کو فوری طور پر حوالے کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ایک تعمیلی رپورٹ کا نچوڑ ہے جو وزیر برائے بحری امور علی زیدی کی زیر صدارت بین الوزارتی کمیٹی نے پیش کی تھی اور معاون خصوصی برائے بجلی و پیٹرولیم نے کابینہ کمیٹی برائے توانائی (سی سی او ای) کو وفاقی کابینہ کی ہدایت پر 15 اپریل کو پیش کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ وفاقی کابینہ نے 2 اگست 2019 کو فیصلہ کیا تھا کہ ان پانچوں دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں جو کوانٹیٹیٹو رسک اسسمنٹ (کیو آر اے) مکمل کرچکے ہیں، ان کو پرووژنل لیٹرز آف انٹینٹ (ایل او آئی) جاری کیے جائیں۔

لہٰذا پورٹ قاسم اتھارٹی (پی کیو اے) نے پانچوں ٹرمینل آپریٹرز کو ایل او آئی جاری کیے، اس کے بعد دو ٹرمینل آپریٹرز انرگیس اور تعبیر انرجی نے شرائط و ضوابط کو قبول کیا اور رعایتی فیس کے حصے کے طور پر 20 لاکھ امریکی ڈالر جمع کرائے جو مجموعی ایک کروڑ ڈالر فی کَس ہے اور باقی کے 80 لاکھ ڈالر نفاذ کے دستخط ہونے پر جمع کرائے جائیں گے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ وزارت بحری امور نے پیٹرولیم ڈویژن کے ساتھ مل کر نئے ایل این جی ٹرمینل ڈیولپرز کو ایل این جی ٹرمینلز کی تکمیل کے لیے مختلف وزارتوں اور محکموں سے این او سی حاصل کرنے میں مدد فراہم کی۔

گزشتہ ہفتے کے اجلاس میں پورٹ قاسم میں ٹائی ان پوائنٹ کی الاٹمنٹ کے معاملے پر بین الوزارتی کمیٹی نے ایس ایس جی سی ایل کو حکم دیا تھا کہ وہ زمین کا قبضہ دیگر دو ٹرمینلز کی طرح ایک ہفتے کے اندر ایل این جی ٹرمینل ڈیولپرز کے حوالے کردے۔

مزید پڑھیں: اضافی دباؤ کاشکار ایل این جی چِین خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، رپورٹ

رپورٹ کے مطابق ایس ایس جی سی ایل کو ٹرمینل ڈیولپرز کو ٹائی-ان جگہ دینے کے لیے پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم) کے ساتھ لیز معاہدے پر دستخط کرنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اور اس دوران میں 'پی ایس ایم کے ساتھ اراضی کے لیز معاہدے پر بھی دستخط کیے جائیں اور اسی کے مطابق ادائیگی کی جائے'۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ وزارت صنعت اور پی ایس ایم کے نمائندوں نے ریکارڈ پیش کیا کہ گیارہ ایکڑ اراضی ایس ایس جی سی کو سنہ 2016 میں دی جاچکی ہے۔

اضافی اراضی کے لیے وزارت صنعت اور پی ایس ایم کو کوئی تحفظات نہیں تھے کیونکہ ایس ایس جی سی ایل نے لیز کی رقم گزشتہ 6 سالوں سے پی ایس ایم کو جمع نہیں کرائی تھی جس کے نتیجے میں دونوں ادارے لیز معاہدے پر دستخط کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزارت نجکاری کے نمائندوں نے اطلاع دی کہ مذکورہ زمین کا ٹکڑا پی ایس ایم کی بحالی کے لیے نئی تشکیل شدہ خصوصی مقاصد کی گاڑی (ایس پی وی) کے دائرہ کار میں نہیں آتا ہے تاہم ایس ایس جی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر، جنہوں نے حال ہی میں کمپنی میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ اس حوالے سے لاعلم نظر آئے تھے، نے اعتراف کیا کہ 'ایس ایس جی سی ایل اس عمل کو تیز کرے گا'۔

ایک سوال کے جواب میں رپورٹ میں ایس ایس جی سی کے عہدیداروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ٹائی پوائنٹس کے لیے اراضی موجودہ ایل این جی ٹرمینلز کو ایس ایس جی سی اور پی ایس ایم کے درمیان لیز معاہدے پر دستخط کیے بغیر دی گئی تھی۔

گیس ٹرانسپورٹیشن معاہدے (جی ٹی اے) کو حتمی شکل دینے کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل نے دعوٰی کیا ہے کہ دو ٹرمینلز کے ڈیولپرز کے ساتھ اجلاس ہوا جنہیں چاہیے کہ گیس کمپنیوں کو تمام مطلوبہ معلومات فراہم کریں تاکہ چیزوں میں تیزی لائی جاسکے۔

رپورٹ کے مطابق آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے تعمیر و ٹرانسمیشن لائسنسز کے لیے عوامی سماعت کے لیے اخبارات میں اشتہار دینے کا وعدہ کیا تھا اور اس کی سماعت پیر کو ہونے والی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا قطر سے 'سستی ترین' ایل این جی کا 10 سالہ معاہدہ ہوگیا

ڈائریکٹر جنرل ایکسپولزو نے بھی فوری طور پر تعمیر پر اعتراض نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

تاہم پیٹرولیم ڈویژن کے ایک عہدیدار نے کہا کہ گیس کمپنیاں تجارتی فیصلے لینے کے بجائے دباؤ میں کام کر رہی ہیں کیونکہ کچھ وزرا کا خیال ہے کہ وہ اپنی اور موجودہ دو ٹرمینلز کی اجارہ داریوں کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاور ڈویژن نے سی سی او ای کے ذریعے پنجاب (جی پی پیز) میں تین میگا ایل این جی پروجیکٹس کے ساتھ دستخط شدہ 66 فیصد کے 'ٹیک یا پے' ذمہ داریوں کو ختم کردیا ہے۔

عہدیدار کے مطابق حقوق اور ذمہ داریوں میں اس تبدیلی کے باوجود ان پلانٹس کا آر ایل این جی مطالبہ ختم نہیں ہوگا۔

نیز ایس این جی پی ایل کو اپنی ایل این جی اور گیس ٹرانسپورٹیشن گنجائش کے بارے میں 150 ایم ایم سی ایف ڈی 'سریندڑ' کرنے پر مجبور کیا گیا تھا، تاکہ ایک اور سرکاری شعبے کا ادارہ کے الیکٹرک کے ساتھ 'ٹیک یا پے' کا معاہدہ کرے۔

یہ اس حقیقت کے باوجود تھا کہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور پھر وفاقی کابینہ نے گزشتہ سال اگست میں ٹرمینلز میں اضافی یا غیر استعمال شدہ صلاحیت کو تیسری پارٹی کو مختصر مدت، تین ماہ کے لیے نیلام کرنے کے منصوبے کو منظور کیا تھا۔

ایس این جی پی ایل نے یہ بھی بتایا ہے کہ اسے دونوں ٹرمینلز سے 1200 ایم ایم سی ایف ڈی آر ایل این جی کی ضرورت تھی، سوائے تین سے چار کم طلب والے مہینوں کے اور اگر 150 ایم ایم سی ایف ڈی ٹیک یا پے کی بنیاد پر کے الیکٹرک کو دی گئی تھی تو یہ بات شروع میں ہی واضح ہوجانی چاہیے کہ 150 ایم ایم سی ایف ڈی 1200 ایم ایم سی آیف ڈی سے زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی ٹینڈر ڈیفالٹ پاکستان کے لیے رحمت بن گیا

وزیر اعظم کے سابق معاون برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے بھی وعدہ کیا تھا کہ پاکستان گیس پورٹ 6 ماہ کے اندر اندر پیک ٹائم پر 750 ایم ایم سی ایف ڈی پر چلائے گا جبکہ اینگرو ٹرمینل اکتوبر میں ایک بڑے جہاز کو شامل کرے گا جو اس کی صلاحیت 900 ملی میٹر فی گھنٹہ تک بڑھا دے گی لہٰذا موجودہ دو ٹرمینلز میں اضافی ٹرمینل گنجائش 300 سے 400 ایم ایم سی ایف ڈی ہوگی۔

تاہم تمام بات چیت میں عوامی یوٹیلیٹی کو اس سطح پر لے جایا گیا یہاں تک کہ کابینہ کے فیصلے میں جس نے رہائشی سیکٹر میں گیس کنیکشن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے استعمال کے بڑھنے کی تصدیق کی تھی، کو مکمل طور پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

ایس این جی پی ایل کے پاس نئے کنیکشن کے لیے 28 لاکھ زیر التوا درخواستیں موجود ہیں اور حکومت نے مالی سال 21-2020 میں 7 لاکھ نئے کنیکشن، مالی سال 22-2021 میں 12 لاکھ اور مالی سال 23-2022 میں 18 لاکھ کنیکشن دینے کا فیصلہ کیا ہے جو مجموعی طور پر 38 لاکھ اضافی کنیکشنز بنتے ہیں، جس میں تقریباً 150 ایم ایم سی ایف ڈی اضافی گیس درکار ہوتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رہائشی سیکٹر میں بھاری مقدار میں آر ایل این جی کی فراہمی کی وجہ سے حکومت نے گیس کے شعبے میں 250 ارب روپے سے زائد کا گردشی قرضہ پیدا کیا ہے جہاں تقریباً 80 فیصد صارفین 1200 سے 1600 روپے فی یونٹ درآمدی قیمت کے مقابلے میں 121 سے 600 روپے فی یونٹ سبسڈائزڈ گیس کی قیمتوں میں ادائیگی کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں