کووڈ-19 کی تیسری لہر: قومی اسمبلی کی سرگرمیاں جزوی طور پر معطل

اپ ڈیٹ 24 اپريل 2021
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے دفاتر کو 26 اپریل سے 30 اپریل تک 5 دنوں کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے—
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے دفاتر کو 26 اپریل سے 30 اپریل تک 5 دنوں کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے—

کورونا وائرس کی تیسری لہر کے دوران بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر قومی اسمبلی کی تمام تر سرگرمیاں جزوی طور پر معطل کردی گئی ہیں۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے شعبہ انتظامیہ کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن میں کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے دفاتر کو 26 اپریل سے 30 اپریل تک 5 دنوں کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے کیلئے شہروں میں فوج طلب

سیکریٹریٹ کے ملازمین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 26 اپریل سے 30 اپریل تک الیکٹرانک ذرائع کی مدد سے گھر سے کام جاری رکھیں۔

اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ ضرورت پڑنے پر کسی بھی ملازم کو ایک گھنٹے کے نوٹس پر آفس بلایا جا سکتا ہے اور ملازمین کو اسٹیشن چھوڑنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

اس سلسلے میں مزید کہا گیا کہ 3 مئی سے مختلف شعبہ جات کے انچارج محدود اسٹاف کو ضرورت پڑنے پر آفس بلائیں گے اور جن میں شعبہ انتظامیہ، کمیٹی ونگ، قانون سازی اور خصوصی اقدامات کا عملہ شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ، پبلک اکاؤنٹس اور خصوصی کمیٹیوں کے 30 اپریل تک ہونے والے اجلاسوں کو ری شیڈول کر دیا گیا ہے اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو جراثیم کش ادویات سے تمام دفاتر کو پاک کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کورونا کی سنگین صورتحال، پاکستانیوں کا وزیراعظم سے امداد بھیجنے پر زور

عملے کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کورونا وائرس کی علامات کی صورت میں فوری ٹیسٹ کرائیں اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں داخلے کے لیے ماسک لازمی قرار دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر کے دوران ملک میں تیزی کے ساتھ کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں اور اموات کی شرح بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتر ہوتی صورتحال کے پیش نظر وزیر اعظم نے کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے شہروں میں فوج طلب کر لیا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت میں کورونا وائرس کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے میری اپیل ہے کہ اگر ہم نے احتیاط نہیں کی تو زیادہ سے زیادہ ہفتے، 2 ہفتوں میں ہمارے ہاں بھی بھارت جیسے حالات ہوجائیں گے۔

دوسری جانب وزیر منصوبہ و ترقی اسد عمر نے بھی بڑھتے کیسز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ملک میں آکسیجن کی کھپت 90فیصد ہو چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس دنیا کے بلند ترین مقام پر بھی پہنچ گیا

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں آکسیجن کی پوری پیداواری صلاحیت 90 فیصد تک پہنچ چکی ہے جس میں 75 سے 80 فیصد آکسیجن صحت کے لیے استعمال ہورہی ہے جس میں کورونا وائرس کے تشویش ناک مریضوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔

ادھر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں انتہائی نگہداشت یونٹس میں داخل تشویش ناک مریضوں کی تعداد 4 ہزار 600 سے زائد ہے اس لیے ہم پچھلی لہر سے بہت اوپر جاچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کیسز مثبت آنے کی شرح بھی مسلسل 10 فیصد یا اس سے اوپر ہے جس سے لگتا ہے ہمارے معاشرے میں وبا کا شدید پھیلاؤ موجود ہے اور کچھ شہروں میں مثبت شرح 20 فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔

پاکستان میں اب تک 7 لاکھ 84 ہزار سے زائد افراد وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور 16 ہزار 842 موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں