تیل و گیس کی تلاش کے 6 بلاکس سرکاری کمپنیوں کو ایوارڈ کردیے گئے

اپ ڈیٹ 24 اپريل 2021
تین سال کی مدت میں کمپنیاں  2کروڑ 46 لاکھ ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کریں گی، ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم مراعات — فائل فوٹو:رائٹرز
تین سال کی مدت میں کمپنیاں 2کروڑ 46 لاکھ ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کریں گی، ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم مراعات — فائل فوٹو:رائٹرز

اسلام آباد: حکومت نے سرکاری تیل و گیس کی تلاش اور ترقیاتی کمپنیوں کو سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں 6 تیل و گیس کی تلاش کے بلاکس ایوارڈ کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے سکریٹری پیٹرولیم میاں اسد حیاالدین اور ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم مراعات عبد الجبار میمن نے حکومت کی طرف سے اور آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کے منیجنگ ڈائریکٹر شاہد سلیم خان، ماری پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ (ایم پی سی ایل) کے منیجنگ ڈائریکٹر فہیم حیدر اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر معین رضا خان نے ایکسپلوریشن لائسنس (ای ایل) اور پیٹرولیم مراعات کے معاہدوں (پی سی اے) پر دستخط کیے، جس کی نگرانی نئے وزیر برائے توانائی محمد حماد اظہر نے کی۔

پیٹرولیم ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم مراعات نے او جی ڈی سی ایل اور ایم پی سی ایل کے ساتھ بلوچستان میں بلاک نمبر 3068-6 (قلعہ سیف اللہ) اور بلاک نمبر 3067-7 (شاران)، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے ساتھ بلاک نمبر 3069-9 (سلیمان بلوچستان)، او جی ڈی سی ایل کے ساتھ سندھ میں بلاک نمبر 2467-17 (سجاول جنوبی)، بلاک نمبر 3273-5 (جہلم) اور بلاک نمبر 3272-16 (لیلا) کے پی سی اے اور ای ایل پر دستخط کیے۔

مزید پڑھیں: حکومت نے تیل و گیس کی پیداوار کی ریئل ٹائم نگرانی شروع کردی

ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم کنسیشنز نے بتایاکہ تین سال کی مدت میں کمپنیاں 2 کروڑ 46 لاکھ ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کریں گی اور ہر بلاک میں سالانہ کم از کم 30 ہزار ڈالر سماجی بہبود کی اسکیموں پر خرچ کیے جائیں گے۔

قلعہ سیف اللہ بلاک 2 ہزار 422 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ضلع قلعہ سیف اللہ میں واقع ہے جبکہ شاران بلاک 2 ہزار 498 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط قلعہ سیف اللہ اور ژوب اضلاع میں واقع ہے۔

اس کے علاوہ سلیمان بلاک 2 ہزار 173 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط موسیٰ خیل، ژوب، قلعہ سیف اللہ اور لورالائی اضلاع میں واقع ہے، سجاول جنوبی بلاک ایک ہزار 914 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط سندھ کے ضلع سجاول میں واقع ہے، جہلم بلاک ایک ہزار 525 مربع کلومیٹر کے رقبے پر جہلم، گجرات اور منڈی بہاالدین اضلاع میں واقع ہے اور لیلا بلاک چکوال، جہلم اور خوشاب اضلاع میں 2 ہزار 361 مربع کلومیٹر کے رقبے پر واقع ہے۔

او جی ڈی سی ایل ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جو گزشتہ چار دہائیوں سے ملک میں تیل اور گیس کی تلاش اور پیداوار (ای اینڈ پی) کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔

اس کمپنی کا ملک میں موجود ذخائر میں سے تیل میں 41 فیصد اور گیس میں 36 فیصد کا سب سے بڑا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہونے کا امکان

پاکستان میں تیل اور گیس کی مجموعی پیداوار میں اس کا حصہ بالترتیب 47 اور 29 فیصد ہے۔

او جی ڈی سی ایل فی الوقت 35 ہزار 805 بیرل تیل یومیہ، ایک ہزار 12 ملین مکعب فی یوم (ایم ایم سی ایف ڈی) گیس، 761 ٹن ایل پی جی اور 53 ٹن سلفر روزانہ پیدا کر رہی ہے۔

پی پی ایل بھی ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جو ملک میں تیل و گیس کی تلاش اور پیداوار کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔

یہ پاکستان کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی ای اینڈ پی کمپنی ہے جو 1950 میں قائم ہوئی تھی۔

پاکستان میں تیل اور گیس کی کل پیداوار میں اس کا حصہ بالترتیب 13 اور 19 فیصد ہے۔

پی پی ایل اس وقت یومیہ 10 ہزار 76 بیرل تیل، 673 ایم ایم سی ایف ڈی اور 238 ملین ٹن ایل پی جی تیار کر رہی ہے۔

ایم پی سی ایل بنیادی طور پر پیٹرولیم انڈسٹری کے اپ اسٹریم حصے میں ایک ریسرچ اور پروڈکشن کمپنی ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ اور بلوچستان میں گیس کے 2 نئے ذخائر دریافت

اس کی بنیادی کاروباری سرگرمیوں میں تیل اور گیس کی تلاش، ڈرلنگ، فیلڈ ڈویلپمنٹ، ہائیڈرو کاربن کی پیداوار اور تقسیم (بشمول قدرتی گیس، خام تیل، کنڈینسیٹ اور ایل پی جی) نیز تجارتی بنیادوں پر ای اینڈ پی سے متعلق خدمات کی فراہمی شامل ہے۔

ماری پیٹرولیم ایک مربوط ایکسپلوریشن اور پروڈکشن کمپنی ہے جو اس وقت سندھ کے شہر ڈہرکی میں ماری گیس فیلڈ میں پاکستان کے سب سے بڑے گیس ذخیرے کا انتظام سنبھال رہی ہے۔

ایم پی سی ایل 753 ایم ایم سی ایف ڈی گیس اور یومیہ ایک ہزار 722 بیرل تیل کے ساتھ ملک میں گیس پیدا کرنے والی دوسری سب سے بڑی کمپنی ہے۔

وزیر توانائی نے امید ظاہر کی کہ لائسنسز سے آئندہ چند سالوں میں اضافی ہائیڈرو کاربن ذخائر کی شکل میں ملک کو فائدہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ای ایل اور پی سی اے پر عمل درآمد سے نہ صرف پیٹرولیم سیکٹر میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا بلکہ ملک میں توانائی کی طلب اور رسد کے درمیان پائے جانے والے فرق کو دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں