2023 تک گردشی قرضے 11 کھرب روپے سے زائد ہی رہیں گے

اپ ڈیٹ 26 اپريل 2021
ٹیرف میں اضافے جیسے 'سرجیکل اقدامات' کے بغیر گردشی قرضے مالی سال 2023 کے اختتام تک 47 کھرب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے، رپورٹ — فائل فوٹو:وکی میڈیا کامنز
ٹیرف میں اضافے جیسے 'سرجیکل اقدامات' کے بغیر گردشی قرضے مالی سال 2023 کے اختتام تک 47 کھرب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے، رپورٹ — فائل فوٹو:وکی میڈیا کامنز

اسلام آباد: بار بار ٹیرف میں اضافے، متعدد پرانے آزاد پاور پلانٹس (آئی پی پیز)، ایندھن کی لاگت، ٹیکس سے متعلق معقول ادائیگی اور آئندہ دو سالوں تک بروقت سبسڈی ادائیگیوں کے باوجود بجلی کے شعبے کے گردشی قرضے مالی سال 2023 کے اختتام تک 11 کھرب روپے سے زائد رہیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم یہ ‘سرجیکل اقدامات’ نہ کرنا کوئی آپشن نہیں ہے، ان اقدامات کے بغیر گردشی قرضے مالی سال 2023 کے اختتام تک 47 کھرب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکام نے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت جاری منصوبوں کے بارے میں چینی مالیاتی اداروں کے ساتھ ایک معاہدے کے قریب پہنچنے کی اطلاع دی ہے جس سے آئندہ مالی سال (مالی سال 2022) کے دوران حکومت پر مالی بوجھ 5 ارب روپے سے کم ہوجائے گا اور مالی سال 2023 میں 25 ارب روپے یعنی دو سالوں میں 30 ارب روپے۔

یہ بچت بنیادی طور پر قرض کی مدت میں توسیع کی وجہ سے ہے۔

مزید پڑھیں: عالمی بینک کو گردشی قرضے پر قابو پانے کے منصوبے کی تفصیلات فراہم

یہ نظر ثانی شدہ گردشی قرضے کے منیجمنٹ پلان (سی ڈی ایم پی) کا ایک حصہ ہے جو منظوری اور اس پر عمل درآمد کے لیے رواں ہفتے وفاقی کابینہ کو پیش کیا جائے گا۔

ڈان کو دستیاب دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ بلند نظر پالیسی ایکشنز کی وجہ سے گردشی قرضے 2 سال میں 20 کھرب روپے تک پہنچ جائیں گے، مالی سال 2023 میں بجلی کا اوسط ٹیرف 20.25 روپے فی یونٹ ہونے کا امکان ہے جو فی الحال فی یونٹ 15.4 روپے ہے۔

اس منصوبے کے تحت مستقبل قریب میں کوئلے سے چلنے والا کوئی اضافی بجلی گھر نہیں بنایا جائے گا اور پہلے ہی کمیشنڈ اور زیر تعمیر درآمد شدہ کوئلے پر مبنی تقریباً 5500 میگاواٹ کے آئی پی پیز اور جامشورو ون کو موجودہ بلاکس 1 اور 2 سے تھر کوئلے میں تبدیل کیا جائے گا۔

اسی طرح ٹیرف کی بچت متوقع طور پر کوئلے کی قیمت فی ٹن 50 سے 60 ڈالر سے کم ہوکر 30 ڈالر تک آجائے گی، تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ کیا ان دو سالوں میں تھر میں کوئلے کی پیداوار کو اس سطح تک بڑھانا قابل عمل ہے یا نہیں؟

یہ منصوبہ کوئلے کی قیمتوں کا تعین کرنے کے موجودہ فارمولے پر سندھ حکومت سے ایکوئٹی پر ریٹرنز میں سے ڈالر انڈیکسیشن کو ختم کرکے دوبارہ تبادلہ خیال کا بھی عہد کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بڑھ کر نومبر تک 23 کھرب 6 ارب روپے ہوگئے

اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ریلوے کے کاروبار کو بحال کرنے کے منصوبے کے تحت سی پیک کا ایک الگ منصوبہ پہلے ہی شروع کیا گیا ہے اور ریلوے کے ذریعے کوئلے کی فراہمی کے لیے فزیبلٹی اسٹڈی مکمل کی گئی ہے۔

اس منصوبے میں کہا گیا ہے کہ آئی پی پیز کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس کا اندازہ 117 ارب روپے لگایا گیا تھا تاہم صارفین کو لگایا گیا جی ایس ٹی 202 ارب روپے تھا جس کا مطلب ہے کہ 85 ارب روپے کا 'اضافی جی ایس ٹی' فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں جا رہا ہے۔

اس تضاد کو دور کرنے سے صارفین کے نرخوں پر 85 پیسے فی یونٹ اثر پڑے گا۔

اسی طرح مزید 22 ارب ڈالر کی بچت کا تصور کیا جارہا ہے جس کا صارفین پر 22 پیسے فی یونٹ اثر پڑے گا۔

منصوبے میں کہا گیا ہے کہ آئی پی پیز کے ایندھن پر عائد ٹیکس (کسٹم ڈیوٹی، جی آئی ڈی سی، ایکسائز ڈیوٹی، امپورٹ ڈیوٹی وغیرہ) 383 ارب روپے ہے جو بغیر ٹیکسز کے 361 ارب روپے تک آجائے گا۔

مزید پڑھیں: ’مالی سال 2020 میں گردشی قرضہ 30 فیصد بڑھ کر 21 کھرب 50 ارب روپے ہوگیا‘

اس کے علاوہ اس منصوبے میں سکوک اور پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز کے مالی معاونت کے ذریعے تقریباً 150 سے 200 ارب روپے کی رعایتی قیمت پر 3300 میگاواٹ صلاحیت کے 11 آئی پی پیز خریدنے کا ارادہ کیا گیا ہے۔

ان پلانٹس میں ایندھن کی لاگت کی وجہ سے 5 فیصد سالانہ ڈسپیچ عنصر بہت مہنگا ہے (تقریباً 13 روپے فی یونٹ) تاہم 'ٹیک اور پے' کی بنیاد پر 60 ارب روپے کے صلاحیتی چارجز بھی شامل ہیں، اس سے فی یونٹ ٹیرف میں 6 پیسے تک کا اثر پڑے گا۔

اس کے علاوہ اس نظام سے ختم کی جانے والی صلاحیت کو نئے ہوا اور شمسی آئی پی پیز کے ساتھ تبدیل کردیا جائے گا، جس کو ہائبرڈ ماڈل کے تحت نیلام کیا جائے گا تاکہ 20 سے 30 فیصد کے بجائے پلانٹ ڈسپیچ عنصر کو 45 سے 50 فیصد تک بہتر بنایا جاسکے گا۔

یہاں بنیادی اصول اضافی صلاحیت سے نمٹنے کے لیے 'ایک میگاواٹ کے بدلے صفر میگاواٹ شامل کیا جائے گا' یعنی صفر اضافہ ہوگا۔

یہ 100 سے زائد اسپانسرز کے لیے بلاک نیلامی کے ساتھ شروع کیا جائے گا جو پہلے ہی 6 ہزار میگاواٹ کے کیٹیگری 3 میں دلچسپی رکھتے ہیں، تاہم انہیں فی الوقت اس کی اجازت نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: گردشی قرضے کم کرنے کیلئے سخت اقدامات تجویز

اس میں 2030 تک 60 فیصد صاف توانائی کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے پن بجلی اور بیگسی پلانٹ بھی شامل ہوں گے۔

یہ منصوبہ اس قیاس پر مبنی ہے کہ بجلی کی خریداری کے معاہدے کے ساتھ ترمیم شدہ تجارتی معاہدے پر جون 2021 تک کے الیکٹرک کے ساتھ دستخط ہوجائیں گے، بجلی کی کھپت میں 4.5 فیصد فی سال اضافہ ہوگا، گیس موریٹوریئم کیپٹِو پلانٹس اور صنعتی سپورٹ پیکیج جاری رہے گا۔

اس کے علاوہ پائپ لائن میں موسمی بجلی کی قیمتوں کا تعین بھی ہے جس میں موسم سرما میں گھریلو نرخوں میں تبدیلی شامل ہے تاکہ 'گیس سے بجلی' کی ترغیب ملے۔

آئی ایم ایف کے بینچ مارک کے مطابق پاور ہولڈنگ لمیٹڈ کے قرض کے اسٹاک کو عوامی قرض میں منتقل کرنے اور مکمل سبسڈی کی ضروریات کو بروقت بجٹ دینے اور بروقت فراہمی کرنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کے حصے کے طور پر قرض دہندگان کے ساتھ وابستگی کی بنیاد بھی رکھی گئی ہے۔

تاہم سب سے اہم وفاقی حکومت کی جانب سے وعدہ پورا کیا جانا ہے جس میں بروقت سالانہ ٹیرف چھوٹ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ، جون میں آزاد جموں و کشمیر سبسڈی کی ادائیگی اور آئندہ بجٹ میں پی ایچ ایل اور آئی پی پیز مارکیٹ کے پیمنٹ سرچارج کی وصولی میں خلا کو مختص کرنا شامل ہے۔

مزید پڑھیں: پاور ڈویژن کا گردشی قرض 22 کھرب 60 ارب روپے تک پہنچ گیا

حکومت کا مالی سال 21-2020 میں اوسطاً 92 فیصد سے مالی سال 22-2021 میں 94.9 فیصد اور مالی سال 23-2022 تک 96 فیصد تک بلوں کی ریکوری کو یقینی بنانے کا بھی وعدہ ہے۔

اس کے ساتھ ہی مالی سال 2021 میں 17 فیصد سے مالی مالی سال 2022 میں 16.32 فیصد اور مالی سال 2023 میں 15.7 فیصد پر ریگولیٹر کے 13.46 فیصد کے معیار کے مقابلے میں نقصانات کم ہوں گے۔

اس دوران میں حکومت آئندہ ماہ (مئی) کے آخر تک آزاد بورڈ کی تشکیل اور ڈسکوز کے چیف ایگزیکٹوز کی تقرری مکمل کرے گی اور انتظامی معاہدوں کے لیے کارکردگی کے اہم اشارے دے گی، 'زیادہ نقصان والے فیڈرز' کو آؤٹ سورس کیا جائے گا، ڈسکوز کو سرمائے کے اخراجات کے لیے اہداف دیے جائیں گے، لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ریونیو پر مبنی ہوگی، نجکاری کمیشن بیک وقت پانچ بھاری نقصان اٹھانے والی کمپنیوں کے لیے 10 سالہ مراعات کے معاہدے اور پانچ بہتر ڈسکوز کے لیے پانچ سالہ انتظامی معاہدے کرے گا۔

تاہم کھیر کا اصل مزہ تو اسے کھانے میں ہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں