نوجوان اور صحت مند افراد جن میں فالج کا خطرہ بڑھانے والے عناصر موجود نہیں ہوتے، نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے نتیجے میں اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

یہ بات اب تک کی سب سے بڑی اور جامع طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔

کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے ہی طبی ماہرین یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ نیا کورونا وائرس کس حد تک دیگر امراض بالخصوص دماغی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔

2020 کے شروع میں نیویارک کے ماؤنٹ سینائی ہاسپٹل میں کووڈ کے 5 ایسے نوجوان مریضوں کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے جن میں کورونا کی تصدیق کے بعد فالج کا حملہ ہوا۔

اس رپورٹ کے بعد ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کورونا وائرس کے باعث ایسے مریضوں کو بھی فالج کا سامنا ہوسکتا ہے جن میں شریانوں کے امراض، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس یا تمباکو نوشی کی تاریخ نہیں۔

اب اس نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ نوجوان کووڈ مریضوں میں فالج کا خطرہ اس عمر کے دیگر افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو کووڈ 19 سے متاثر نہیں ہوتے۔

طبی جریدے جرنل اسٹروک میں شائع تحقیق میں دنیا بھر کے 136 اداروں کے 89 محققین کو شامل کیا گیا تھا۔

تحقیق میں کورونا وائرس کے شکار ایسے مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جن کو ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد فالج اور دیگر سنگین دماغی امراض کا سامنا ہوا۔

محققین نے ان مریضوں کے کووڈ 19 سے متاثر ہونے اور فالج کے بعد ایم آر آئی ٹیسٹوں میں موجود فرق کا تجزیہ کیا۔

32 ممالک کے 136 طبی مراکز میں سے کم از کم 71 میں ایک مریض کو کورونا وائرس کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنے یا ڈسچارج ہونے کے بعد فالج کا کا سامنا ہوا۔

432 میں سے 323 میں دل سے دماغ کی جانب جانے والی شریانیں بلاک ہونے سے ہونے والے فالج جبکہ 91 کو ہیمرج اور 18 کو دماغی شریانیں بلاک ہونے کے باعث فالج کا سامنا ہوا۔

مگر ان سب میں زیادہ تشویشناک امر دل سے دماغ کی جانب جانے والی شریانوں بلاک ہونے سے نوجوانوں میں فالج کے واقعات تھے جن میں اس طرح کے حملے کا باعث بننے والے عناصر موجود نہیں تھے۔

ایسے 380 میں ے 144 افراد میں وائرس کی علامات جیسے کھانسی، بخار وغیرہ نظر نہیں آئی تھیں بلکہ ان میں کووڈ کی تشخیص ہی فالج کے باعث ہسپتال میں داخلے کے بعد ہوئی۔

محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق سے کورونا وائرس اور نوجوان مریضوں میں فالج کے درمیان تعلق کا عندیہ ملتا ہے جو کہ خون کی شریانوں بلاک ہونے کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم فالج کے جوان مریضوں میں کووڈ ٹیسٹنگ کا مشورہ دیتے ہیں بالخصوص ایسے افراد میں جن میں پہلے سے کوئی بیماری موجود نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پراعتماد ہیں کہ تحقیق سے کووڈ 19 اور فالج کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور مریضوں کے مؤثر علاج میں مدد مل سکے گی۔

اس سے قبل فروری 2021 میں امریکا کی ٹیکساس یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ نیا کورونا وائرس انسانی دماغ میں داخل ہوسکتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کی ایک واضح علامات سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی ہے جو براہ راست دماغ کے متاثر ہونے کی نشانی ہے۔

اسی طرح کورونا وائرس کے کچھ مریضوں میں سنگین دماغی پیچیدگیاں بشمول اعصاب کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

محققین نے ایک منفرد لیبارٹری ماڈل تیار کیا تھا تاکہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے مختلف اقسام کے دماغی خلیات کو شناخت کیا جاسکے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ دماغ کے glial خلیات کووڈ 19 سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

اس سے قبل glial خلیات اور نئے کورونا وائرس کے درمیان تعلق کے حوالے سے زیادہ تحقیقی کام نہیں ہوا۔

محققین نے بتایا کہ یہ دماغی خلیات انتہائی اہم معاون خلیات ہیں اور اب جاکر ہم نے بیماری کے حوالے سے ان کے کردار کو سمجھنا شروع کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ خلیات اعصابی خلیات کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں، ایک حد قائم کرتے ہیں اور دماغ کو بیماریوں اور اعصابی خلیات کو نقصان پہنچانے والے کیمیکلز سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے اسٹیم سیل رپورٹس میں شائع ہوئے۔

جنوری 2021 میں امریکا کی جارجیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ نتھنوں سے جسم میں داخل ہونے پر پھیپھڑوں کی بجائے براہ راست دماغ پر برق رفتار حملہ کرتی ہے، جس کے نتیجے میں شدت سنگین ہوتی ہے، چاہے پھیپھڑوں سے وائرس کلیئر ہی کیوں نہ ہوجائے۔

یہ تحقیق چوہوں پر کی گئی تھی مگر محققین کا کہنا تھا کہ نتائج کا اطلاق انسانوں میں سامنے آنے والی علامات اور بیماری کی شدت کو سمجھنے کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ خیال کہ کووڈ نظام تنفس کی بیماری ہے، ضروری نہیں کہ درست ہو، ایک بار جب یہ دماغ کو متاثر کرلیتا ہے تو جسم کے ہر حصے کو متاثر کرسکتا ہے، کیونکہ دماغ ہمارے پھیپھڑوں، دل اور ہر چیز کو کنٹرول کرتا ہے، دماغ ایک بہت حساس عضو ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل وائرسز میں شائع ہوئے، جس میں متاثرہ چوہوں کے مختلف اعضا میں کورونا وائرس کی مقدار کی جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کے 3 دن بعد چوہوں کے پھیپھڑوں میں وائرس کی مقدار عروج پر ہوتی ہے اور پھر گھٹنا شروع ہوجاتی ہے۔

تاہم اس وائرس کی بہت زیادہ مقدار چوہوں کے دماغوں میں بیماری کے 5 اور 6 دن بعد بھی دریافت کی گئی، جب ان میں بیماری کی زیادہ شدت کی علامات جیسے سانس لینے میں مشکلات اور کمزوری نظر آئیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ وائرس کی مقدار دماغ میں جسم کے کسی بھی حصے کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ تھی۔

اسی طرح دسمبر 2020 میں طبی جریدے نیچر نیوروسائنسز میں شائع تحقیق میں چوہوں پر تجربات کے دوران دریافت کیا گیا کہ اسپائیک پروٹین، خون اور دماغ کے درمیان رکاوٹ کو عبور کرسکتا ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا وائرس بھی دماغ میں داخل ہوسکتا ہے جو اپنے اسپائیک پروٹین جن کو ایس 1 پروٹین بھی کہا جاتا ہے، کو خلیات میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن اسکول آف میڈیسین اور پیوگیٹ ساؤنڈ ویٹرنز افیئرز ہیلتھ کیئر سسٹم کی اس مشترکہ تحقیق کی قیادت کرنے والے ولیم اے بینکس نے بتایا کہ عموماً اسپائیک پروٹین خلیات میں داخلے میں مدد دیتا ہے، مگر ایسے پروٹینز بذات خود بھی اس وقت تباہی مچاتے ہیں جب وہ وائرس سے الگ ہوتے ہیں اور ورم بھی بڑھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایس 1 پروٹین ممکنہ طور پر دماغ کو سائٹو کائینز اور ورم بڑھانے والے مالیکیولز کے اخراج پر مجبور کرتا ہے۔

کووڈ 19 کے نتیجے میں سنگین حد تک بیمار ہونے والے مریضوں میں اکثر مدافعتی نظام کے شدید ردعمل کا نتیجہ سائٹو کائین اسٹروم کی شکل میں نکلتا ہے جو صحت مند خلیات پر حملہ آور ہوجاتا ہے، جبکہ دماغی دھند، تھکاوٹ دیگر ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں