پاکستان میں بجلی کے نرخوں میں اضافے میں تاخیر کا امکان

اپ ڈیٹ 01 مئ 2021
وزیر خزانہ شوکت ترین اور ورلڈ بینک گروپ کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر ہارٹ وِگ شیفر کے ساتھ ایک ورچوئل اجلاس میں یہ مرکزی موضوع تھا — فوٹو:اے پی پی
وزیر خزانہ شوکت ترین اور ورلڈ بینک گروپ کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر ہارٹ وِگ شیفر کے ساتھ ایک ورچوئل اجلاس میں یہ مرکزی موضوع تھا — فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: پاکستان نے کووڈ 19 وبا کی تیسری اور زیادہ متعدی اور مہلک لہر کے پیش نظر عالمی بینک کو بجلی کے نرخوں میں اضافے کو آگے بڑھانے کے حوالے سے باضابطہ طور پر ایک تجویز پیش کردی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ شوکت ترین اور ورلڈ بینک گروپ کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر ہارٹ وِگ شیفر کے درمیان ایک ورچوئل اجلاس میں یہ مرکزی موضوع تھا۔

اس موقع پر وزیر توانائی محمد حماد اظہر، وزیر برائے اقتصادی امور عمر ایوب خان، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ اور ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود اور سیکریٹری خزانہ اور بجلی ڈویژن نے بھی شرکت کی۔

سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہارٹ وگ شیفر نے جنوبی ایشیا میں کووڈ 19 کی تیسری لہر کے دوران اموات اور فعال کیسز میں خطرناک حد تک اضافے پر تشویش کا اظہار کیا اور پاکستان میں صحت کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں دریافت کیا۔

مزید پڑھیں: بجلی کے نرخوں میں 2 برس میں فی یونٹ 5.36 روپے کا اضافہ متوقع

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کو کورونا کی تیسری لہر کے دوران کئی چیلنجز کا سامنا ہے، 'کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے جارحانہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی گئی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو خراب صورتحال میں آکسیجن کی فراہمی کو پورا کرنے میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور حکومت آکسیجن کی پیداوار بڑھانے کے طریقوں اور ذرائع پر غور کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جب پاکستان معاشی موڑ کی طرف بڑھنے لگا تو اسے کووڈ 19 نے تیسری بار نشانہ بنایا اور اسی وجہ سے حکومت کو سخت اصلاحات پر عمل درآمد کا شیڈول اپناتے ہوئے کچھ دیر کے لیے رکنا پڑ سکتا ہے۔

سیکریٹری پاور ڈویژن علی رضا بھٹہ نے اجلاس کو ورلڈ بینک کے جاری منصوبوں اور پروگرامز میں پیشرفت کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان بجلی کے شعبے میں ٹارگٹڈ سبسڈی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کارکردگی اور سروسز کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے (مراحل میں) سبسڈی کو معقول بنانے کے لیے پُرعزم ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: آرڈیننس کے ذریعے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے منصوبے پر سخت تنقید

اسی پس منظر میں ہی سرکاری ٹیم نے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ پر نرمی اور ٹائم لائنز تیار کیں اور اسے آگے پیش کیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ سماجی اور اقتصادی ترقی، بہتر مالیاتی انتظام، توانائی کے شعبے میں اصلاحات، سماجی شعبے کی ترقی اور ریونیو میں اضافہ حکومت کی ترجیح ہے۔

عالمی بینک کے نائب صدرنے کورونا سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی۔

واضح رہے کہ حکومت نے پہلے ہی ورلڈ بینک کے ساتھ نظرثانی شدہ گردشی قرضوں کے انتظامات کے حوالے سے منصوبہ شیئر کیا ہے جس میں بار بار ٹیرف میں اضافے، اگلے دو سالوں میں متعدد پرانے آزاد بجلی گھروں، ایندھن کے تبادلوں، ٹیکس سے متعلق معقول ادائیگی اور بروقت سبسڈی ادائیگیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

عالمی بینک کو بتایا گیا تھا کہ حکومت ان اقدامات کے لیے پرعزم ہے ورنہ مالی سال 2023 کے اختتام تک گردشی قرضے 47 کھرب روپے سے تجاوز کر جائیں گے۔

حکومت نے ٹیرف میں اضافے کے ذریعے صارفین سے 11 کھرب روپے اضافی فنڈز پیدا کرنے کا وعدہ کیا ہے، اس کے علاوہ بلنگ کی وصولی میں 5 فیصد سے 96 فیصد تک بہتری، سسٹم کے نقصانات میں تقریباً 0.7 فیصد کی کمی کا بھی وعدہ کیا ہے۔

مالی سال 2023 کے اوسط نرخ 20 سے 25 روپے فی یونٹ رہنے کا امکان ہے جبکہ فی الحال فی یونٹ 15.4 روپے سے بھی کم ہے۔

اس منصوبے کے تحت مستقبل قریب میں کوئلے پر مبنی کوئی اضافی بجلی گھر نہیں ہوگا اور درآمدی کوئلہ پر مبنی آئی پی پیز اور جامشورو ون پر تقریباً 5500 میگاواٹ کے زیر تعمیر پلانٹ کو تھر کوئلے میں تبدیل کردیا جائے گا۔

یہ منصوبہ کوئلہ کی قیمتوں کا تعین کرنے کے موجودہ فارمولے کی بحالی پر بھی حکومت سے معاہدہ کرے گا جس سے اس کی ایکوئٹی ریٹرن پر ڈالر کا خاتمہ، کوئلے کی نقل و حمل کو ریلوے میں منتقل کرنا اور سیلز ٹیکس بلنگ کے طریقہ کار کو معقول بنانا شامل ہے۔

مزید پڑھیں: صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں 61 پیسے فی یونٹ کمی کا امکان

اس منصوبے میں کہا گیا ہے کہ آئی پی پیز کی جانب سے بل کردہ جنرل سیلز ٹیکس 117 ارب روپے تھا لیکن صارفین سے جی ایس ٹی 202 ارب روپے وصول کیا گیا تھا جس کا مطلب ہے کہ 'اضافی جی ایس ٹی' 85 ارب روپے وفاقی بورڈ آف ریونیو میں جا رہا ہے۔

اس تضاد کو دور کرنے سے صارفین کے نرخوں پر 85 پیسے فی یونٹ اثر پڑے گا۔

اسی طرح ایندھن پر ٹیکسز (کسٹم ڈیوٹی، جی آئی ڈی سی، ایکسائز ڈیوٹی، امپورٹ ڈیوٹی وغیرہ) میں ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے صارفین پر 22 پیسے فی یونٹ کی بچت کا تصور کیا جارہا ہے۔

حکومت پہلے ہی 2 ہزار 300 میگاواٹ کے ان 11 آئی پی پیز پلانٹس کا اعلان کرچکی ہے جسے سکوک اور پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز کے ذریعے 150 سے 200 ارب روپے کی رعایتی قیمت پر خریدے گی۔

دوسری جانب پاور ڈویژن نے ایک 9 رکنی کمیٹی تشکیل بھی دی ہے جس کی قیادت ایڈیشنل سیکریٹری پاور کر رہے ہیں۔

یہ کمیٹی 11 آئی پی پیز کے ساتھ عملدرآمد کے معاہدوں کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدوں کے پیرامیٹرز کا تفصیلی قانونی، تکنیکی اور تجارتی تجزیہ کرنے کے بعد اس کی برطرفی کی سفارشات اور آئندہ کے عمل پر غور کرے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں