بلوچستان اسمبلی: معدنی ذخائر کی تلاش کمپنیوں کے سپرد کرنے پر کمیٹی تشکیل

اپ ڈیٹ 01 مئ 2021
ایکسپلوریشن لائسنس جاری کرنے سے قبل صوبائی حکومت سے مشاورت نہیں کی گئی، رہنما بی این پی مینگل  — فائل فوٹو:آن لائن
ایکسپلوریشن لائسنس جاری کرنے سے قبل صوبائی حکومت سے مشاورت نہیں کی گئی، رہنما بی این پی مینگل — فائل فوٹو:آن لائن

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے صوبے کو اعتماد میں لیے بغیر سرکاری تیل اور گیس کمپنیوں کو دیئے گئے پیٹرولیم ایکسپلوریشن بلاکس کی تفصیلات جاننے کے لیے ایک خصوصی تکنیکی کمیٹی تشکیل دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی رکن اسمبلی ثنا بلوچ نے صوبائی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ وفاقی حکومت نے صوبوں کو اعتماد میں لیے بغیر بلوچستان سمیت صوبوں میں معدنی وسائل کی تلاش کے لیے کمپنیوں کو 6 بلاکس مختص کیے تھے جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تین بڑی کمپنیوں کو بلوچستان میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے لائسنس دیئے گئے، یہ کمپنیاں اربوں روپے کھوج کے کام پر خرچ کریں گی جبکہ اس بڑی سرمایہ کاری میں سے صوبے کو صرف 30 ہزار ڈالر ملیں گے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان اسمبلی کے 2 اراکین اسمبلی کی انتخابی کامیابی کالعدم قرار

ثنا بلوچ نے ایوان کو بتایا کہ ایک کمپنی بلوچستان میں 24 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی تاہم تلاش کا لائسنس جاری کرنے سے قبل صوبائی حکومت سے مشاورت نہیں کی گئی۔

انہوں نے دعوٰیٰ کیا کہ کوہلو اور قلات میں تیل اور گیس کے ذخائر پہلے ہی دریافت ہوچکے ہیں لیکن کسی کو بھی ان علاقوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت، وفاقی حکومت سے مطالبہ کرے کہ وہ ان کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کی تفصیلات فراہم کرے جو بلوچستان میں کام کریں گی۔

بی این پی (مینگل) کے قانون ساز نے کہا کہ بلوچستان حکومت کو بھی اس سلسلے میں وضاحت جاری کرنی چاہیے اور ایوان میں نمائندگی رکھنے والے فریقین کے اراکین پر مشتمل ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔

وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مچھ میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے، تاہم اس سلسلے میں علاقے کے کسی نمائندے کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی میں ہر پارٹی کے ایک رکن کو شامل کیا جانا چاہیے۔

سابق وزیر اعلیٰ اور حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رکن صوبائی اسمبلی میر جان محمد خان جمالی نے کہا کہ یہ ایک آئینی مسئلہ ہے اور آئین نے 'ہمارے حقوق کو یقینی بنایا ہے اور کوئی بھی ہمیں ان حقوق سے محروم نہیں کرسکتا'۔

انہوں نے اس معاملے پر غور کرنے کے لیے تکنیکی کمیٹی کے قیام کی حمایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان اسمبلی کا صوبائی نشستوں میں اضافے کا مطالبہ

پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے نصراللہ زری نے کہا کہ صوبائی حکومت سے کسی بارے میں نہیں پوچھا گیا کیونکہ فیصلے بیوروکریٹس نے لیے تھے، اس معاملے پر ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔

اسپیکر صوبائی اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے اس بات کی تائید کی کہ اس اہم معاملے کو وفاقی حکومت کے سامنے اٹھانے کے لیے ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

بعد ازاں ثنا بلوچ نے آئین کے آرٹیکل 172 (3) پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی کمیٹی کے قیام کی تحریک پیش کی۔

تحریک منظور کی گئی اور اسپیکر نے کمیٹی تشکیل دے دی۔

تبصرے (0) بند ہیں