میانمار: پارسل بم دھماکے میں سابق قانون ساز سمیت 5 افراد ہلاک

04 مئ 2021
دھماکا مغربی باگو میں میانمار کے جنوبی وسطی حصے کے ایک گاؤں میں پیر کی شام 5 بجے کے قریب ہوا، میڈیا رپورٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی
دھماکا مغربی باگو میں میانمار کے جنوبی وسطی حصے کے ایک گاؤں میں پیر کی شام 5 بجے کے قریب ہوا، میڈیا رپورٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی

میانمار میں پارسل بم دھماکے کے نتیجے میں ایک سابق قانون ساز اور شہری نافرمانی کی تحریک میں شمولیت اختیار کرنے والے 3 پولیس افسران سمیت 5 افراد ہلاک ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یکم فروری کو نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی سربراہی میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے میانمار میں رہائشی علاقوں میں چھوٹے دھماکوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور بعض اوقات سرکاری دفاتر یا فوجی مراکز کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

میانمار ناؤ نیوز ویب سائٹ نے ایک مقامی شخص کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ تازہ دھماکا مغربی باگو میں میانمار کے جنوب وسطی حصے کے ایک گاؤں میں ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گاؤں کے ایک مکان پر کم از کم ایک پارسل بم پھٹنے سے تین دھماکے ہوئے تھے جس میں آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی (این ایل ڈی) پارٹی کے ایک مقامی قانون ساز کے علاوہ 3 پولیس افسران اور ایک رہائشی ہلاک ہوگیا۔

مزید پڑھیں: میانمار: باغی گروپ کا فوجی ہیلی کاپٹر مار گرانے کا دعویٰ

مقامی نے بتایا کہ شہری نافرمانی کی تحریک میں شامل ایک اور پولیس افسر دھماکے سے شدید زخمی بھی ہوا، جسے ہسپتال میں منتقل کردیا گیا ہے اور وہ زیر علاج ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز، آزادانہ طور پر ان رپورٹس کی تصدیق نہیں کرسکا اور فوجی ترجمان نے تبصرے کے لیے کسی فون کال کا جواب نہیں دیا۔

فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے جہاں سیکڑوں شہریوں کی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جبکہ شہروں اور دیہی علاقوں میں جمہوریت کے حامی مظاہروں کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

گزشتہ روز میانمار کے طاقت ور باغی گروپوں میں سے ایک کاچن انڈیپنڈنس آرمی نے دعویٰ کیا تھا کہ فضائی کارروائی کے بعد واپس آنے والے فوجی ہیلی کاپٹر کو مار گرایا گیا۔

چین کی ریاست ہند سے متصل چین کی ایک نئی ملیشیا چن لینڈ ڈیفنس فورس نے منگل کے روز اپنے فیس بک پیج پر کہا تھا کہ اس کی فورسز نے رات کے وقت ہونے والی ایک جھڑپ میں میانمار کے کم از کم چار فوجیوں کو ہلاک اور 10 کو زخمی کردیا۔

میانمار کی فوج نے ابھی تک کسی بھی دعوے پر تبصرہ نہیں کیا ہے۔

میانمار ناؤ کی خبر کے مطابق جمہوریت کے حامیوں نے منگل کے روز ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر منڈالے میں احتجاجی مظاہرے کیے جن میں تعلیمی عملہ بھی شامل تھا جنہوں نے جون میں دوبارہ کھلنے پر اسکولوں اور یونیورسٹیز کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار کے کیرن گوریلاز کا فوجی بیس پر قبضہ، حکومت کی جوابی کارروائی

اس کے علاوہ بغاوت کے خلاف مظاہرین نے جنوبی میانمار کے کنباؤک شہر میں مارچ کیا، مقامی میڈیا نے اس خبر کے ساتھ مارچ کی تصاویر بھی لگائیں۔

سیاسی قیدیوں کی امدادی تنظیم (اے اے پی پی) کا کہنا تھا کہ بغاوت کے بعد سے سیکیورٹی فورسز نے کم از کم 766 شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔

تاہم میانمار کی فوج نے اس اعداد و شمار پر اختلاف کیا ہے اور کہا کہ مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کے کم از کم 24 ارکان ہلاک ہوئے ہیں۔

فوج کی جانب سے میڈیا پر لگائے جانے والے پابندیوں کی وجہ سے رائٹرز ہلاکتوں کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔

خیال رہے کہ آنگ سانگ سوچی فروری کے شروع سے ہی زیر حراست ہیں اور 75 سالہ رہنما کے ہمراہ دیگر سیاسی رہنما بھی جیلوں میں ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں