لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کو طبی بنیاد پر بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی

اپ ڈیٹ 07 مئ 2021
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کی—فائل فوٹو: اے پی
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کی—فائل فوٹو: اے پی

لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کے لیے اپنا نام بلیک لسٹ سے نکلوانے سے متعلق دائر درخواست منظور کرتے ہوئے مشروط طور پر باہر جانے کی اجازت دے دی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کی اور بلیک لسٹ سے نام نکالنے کی درخواست پر فیصلہ سنا دیا۔

عدالت نے شہباز شریف کو ایک مرتبہ بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دے دی.

لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی درخواست پر وفاقی حکومت، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اورڈائریکٹر جنرل امگریشن اینڈ پاسپورٹ کو اگلے سماعت پر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ 'ماضی کے رویے اور سفری معلومات کے پیش نظر درخواست گزار کا نام اس وقت ایگزٹ کنٹرل لسٹ (ای سی ایل) پر نہیں ہے'۔

فیصلے میں کہا گیا کہ 'درخواست گزار کا نام بلیک لسٹ میں ہے اور موجود ہو تو بھی درخواست گزار کو ایک مرتبہ 8 مئی 2021 سے 3 جولائی 2021 تک اپنے طبی معائنے کے لیے عدالت کے سامنے کیے گئے وعدے کے تحت برطانیہ جانے سے نہیں روکا جاسکتا'۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ ' شہباز شریف نے نواز شریف کے باہر جانے کے لیے یہ گارنٹی عدالت میں جمع کروائی تھی'۔

انہوں نے کہا کہ 'اب بجائے اس کے کہ شہباز شریف کو جعلی گارنٹی دینے پر نوٹس کیا جاتا اور نواز شریف کو واپس بلایا جاتا، خود شہباز شریف کو باہر بھیجا جا رہا ہے'۔

قبل ازیں دوران سماعت شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ شہباز شریف کو پہلی مرتبہ آشیانہ میں 2018 میں گرفتار کیا گیا اور گرفتاری کے بعد رمضان شوگر ملز کا کیس بنا دیا گیا۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کا ضمانت کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع

انہوں نے کہا کہ فروری 2019 میں ضمانت ہوئی جس کے بعد حکومت نے نام ای سی ایل میں ڈال دیا لیکن ہائی کورٹ نے مارچ 2019 نام ای سی ایل سے نکال دیا۔

امجد پرویز نے کہا کہ اس کے بعد حکومت نے نیا طریقہ نکالا اور نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف، برطانیہ میں ڈاکٹر مارٹن سے چیک اپ کے لیے وقت لے چکے ہیں اور ان کی کل کی فلائٹ بک ہے۔

شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بلیک لسٹ میں نام شامل کرنے کے لیے صدر مسلم لیگ (ن) کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا۔

امجد پرویز نے دلائل دیے کہ شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہیں ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنا غیر قانونی ہے۔

اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کا نام کسی بلیک لسٹ میں ہے؟

انہوں نے جواب دیا کہ یہ درخوست مفروضے کی بنیاد پر ہے اور بغیر ہدایات لیے میں عدالت کی معاونت نہیں کر سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کی ضمانت منظور

جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے ہدایت کی کہ وہ ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔

لاہور ہائیکورٹ میں مختصر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہدایات نہیں لے سکا، لوگ چھٹی کرکے جا چکے ہیں۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس چھٹیوں کے بعد رکھ لیں۔

دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ شہباز شریف خود کہاں ہیں؟ اور پھر شہباز شریف کو 2 بجے طلب کر لیا۔

امجد پرویز نے جواب دیا کہ شہباز شریف لاہور میں موجود ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ انہوں نے ریٹرن ٹکٹ کیوں نہیں لی۔

جس پر ان کے وکیل نے جواب دیا کہ کورونا کی وجہ سے ریٹرن ٹکٹ فوری ملنا ممکن نہیں ہے لیکن اگر عدالت چاہتی ہے کہ واپسی کے وقت کا بتایا جائے تو اس حوالے سے یقین دہانی کرانے کو تیار ہیں۔

بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ کے طلب کرنے پر شہباز شریف، مریم اورنگزیب اور عطا تارڑ کے ہمراہ لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف کے میڈیکل میں کہیں نہیں بتایا کہ کوئی ایمرجینسی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ تو آن لائن ہو جاتی ہے اور قرنطینہ تو 14 سے 10 دن کا کبھی نہیں سنا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہاز شریف نے اتنے میڈیکل کے پراجیکٹ بنانے کا دعوی کیا وہاں اپنا علاج کروائیں۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز کا درخواست ضمانت پر جلد سماعت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ پوچھا یہ تھا کہ کیا بلیک لسٹ میں نام ہے؟

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ایک ایسا شخص جس کا نام ای سی ایل میں نہیں ہے اور بلیک لسٹ کا معلوم نہیں، اس پر وفاقی حکومت کے تحفظات کیا ہیں؟

جسٹس علی باقر نجفی نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ شہباز شریف واپس نہیں آئیں گے،کیا وفاقی حکومت کو کوئی گارنٹی چاہیے؟

جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ درخوست گزار پہلے بھی ملک سے جا کر واپس آچکے ہیں۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہمیں کچھ وقت چاہیے، چھٹیوں کی وجہ سے لوگ جا چکے ہیں۔

علاوہ ازیں اس موقع پر سرکاری وکیل نے شہباز شریف کا نواز شریف کے ساتھ برطانیہ جانے کا حلف نامہ پڑھ کر سنایا۔

دوران سماعت انہوں نے عدالت سے درخواست کی ہمیں وقت دیا جائے تاکہ ہم دیگر اداروں سے مشاورت کرلیں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہباز شریف نے عدالت میں گارنٹی دی تھی، اس میں تین باتیں طے ہوئی تھیں، ایک شرط کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ جمع کروائی جائے گی، نواز شریف کی طبعیت بہتر ہوگی تو واپس آئیں گے۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ نواز شریف کا نہیں ہے۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ شہباز شریف منی لانڈرنگ کیس کے مرکزی ملزم ہیں جبکہ گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہو رہے ہیں۔

جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کے باہر جانے سے عدالتی کارروائی متاثر ہوگی؟

جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ آپ کو باہر جانے کی کیا ایمرجینسی ہے؟ جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ وہ کینسر کے مریض رہے ہیں اور مرض کا علاج نیو یارک اور لندن میں ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے کہا گیا کہ ڈاکٹر مارٹن سے ریگولر چیک اپ کراتا رہوں جبکہ جیل میں ہونے کی وجہ سے علاج میں تعطل آیا۔

یہ بھی پڑھیں:منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف، حمزہ شہباز کے جوڈیشل ریمانڈ میں 6 روز کی توسیع

شہباز شریف نے کہا کہ جیل میں ہونے والے میڈیکل ٹیسٹ کی رپورٹ کی روشنی میں فوری علاج کی ضرورت ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کا وطن واپس آنے کا کب تک کا ارادہ ہے۔

شہباز شریف نے جواب دیا کہ جیسے ہی ڈاکٹرز نے علاج کے بعد جانے کا کہا میں فوراً واپس آجاؤں گا، میں پہلے بھی عدالت سے نہیں بھاگا تھا۔

جسٹس علی باقر نجفی کا استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف اپنی واپسی کی کوئی ضمانت دے سکتے ہیں۔

امجد پرویز نے شہباز شریف کی 3 جولائی کو پاکستان واپسی کی بھی ٹکٹ پیش کی۔

دوران سماعت شہباز شریف نے کہا کہ میں ماں سے ملا، ان کے پاؤں کو ہاتھ لگایا اور پاکستان واپس آگیا کیونکہ میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں اور ملک کی خدمت کے لیے صحتمند رہنا چاہتا ہوں۔

بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر شہباز شریف کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو تھوڑی دیر بعد جاری کردیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز عدالت میں دائر درخواست میں شہباز شریف نے وفاقی حکومت، وزارت داخلہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو فریق بنایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں