بھارت میں گردش کرنے والی کورونا وائرس کی نئی قسم زیادہ متعدی اور ممکنہ طور پر ویکسین سے ملنے والے تحفظ کو کم کرسکتی ہے، جس کے باعث وہاں کووڈ کی وبا بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

یہ بات عالمی ادارہ صحت کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نے ایک انٹرویو کے دوران کہی۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران سومیا سوامی ناتھن نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں وبا کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے عنیہ ملتا ہے کہ وہاں کورونا کی نئی قسم بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔

بھارت میں 8 مئی کو کووڈ کے نتیجے میں پہلی بار 4 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں اور 4 لاکھ سے زیادہ نئے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

سومیا سوامی ناتھن نے کہا کہ بھارت میں گردش کرنے والی کورونا کی قسم بی 1617 کو سب سے پہلے اکتوبر 2020 میں دیکھا گیا تھا اور اس نے ہی بھارتی سرزمین میں کووڈ کی وبا کو تباہ کن بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا 'وبا کی صورتحال بگڑنے کے متعدد عوامل ہوسکتے ہیں، بہت تیزی سے پھیلنے والا وائرس ان میں سے ایک ہے'۔

عالمی ادارہ صحت نے بی 1617 کو ویرینٹ آف انٹرسٹ فہرست میں شامل کیا تھا۔

اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت؟

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس قسم کو باعث تشویش سمجھی جانے والی نئی اقسام کی فہرست میں تاحال حصہ نہیں بنایا گیا۔

تاہم امریکا اور برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے طبی حکام نے کہا ہے کہ وہ بی 1617 کو باعث تشویش تصور کرتے ہیں اور سومیا سوامی ناتھن نے بتایا کہ انہیں توقعہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت بھی جلد ایسا ہی کرے گا۔

ان کا کہنا تھا ' بی 1617 ممکنہ طور پر باعث تشویش بن جانے والی قسم ہے، کیونکہ اس میں کچھ میووٹیشنز سے اس کے پھیلاؤ کی رفتار بڑھی ہے اور ممکنہ طور پر یہ ویکسین یا بیماری سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہے'۔

تاہم انہوں نے زور دیا کہ اس نئی قسم کو بھارت میں کیسز اور اموات کی شرح میں ڈرامائی اضافے کا واحد ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ وہاں لوگوں نے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت جیسے بڑے ملک میں وائرس کا پھیلاؤ کم شرح سے جاری رہ سکتا ہے اور ایسا ہی وہاں کئی ماہ سے ہورہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس شرح میں بتدریج اضافہ ہوا اور ابتدائی علامات کو دیکھا نہیں جاسکا اور اس کے نتیجے میں صورتحال موجودہ سطح پر پہنچ گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت وبا کو دبا بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں لاکھوں افراد شامل ہیں اور جس رفتار سے وہ پھیل رہا ہے، اسے روکنا بہت ممشکل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صرف ویکسینز کے ذریعے موجودہ صورتحال کو قابو میں کرنا ممکن نہیں ہووگا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ویکسین بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت میں صترف 2 فیصد افراد کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 70 سے 80 فیصد آبادی کی ویکسینیشن میں کئی سال نہیں تو کئی ماہ ضرور لگ سکتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کم کرنے کے لیے طبی اور سماجی اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

سومیا سوامی ناتھن نے کہا کہ وائرس جتنی زیادہ نقول بنائے گا اور پھیلے گا، اتنا زیادہ امکان ہے کہ اس میں مزید میوٹیشنز ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وائرس کی اقسام میں متعدد ایسی میوٹیشنز ہوسکتی ہیں جو موجودہ ویکسینز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہیں اور یہ پوری دنیا کے لیے مسئلہ ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں