جن افراد کو کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سانا ہوتا ہے، ان میں طویل المعیاد بنیادوں پر علامات کا خطرہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔

یہ انکشاف امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں کیا گیا۔

مشی گن یونیورسٹی اسکول آف پبلک ہیلتھ کی اس تحقیق میں لانگ کووڈ کے خطرے سے دوچار افراد کی نشاندہی کی گئی۔

لانگ کووڈ کی اصطلاح ایسے مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو بیماری سے تو صحتیاب ہوجاتے ہیں مگر ان کو کئی ہفتوں یا مہینوں تک مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

ایسے افراد کو بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی کئی ہفتوں یا مہینوں تک مرجانے کی حد تک تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات اور سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

اس تجزیے کے لیے محققین نے مشی گن کووڈ 19 ریکوری سرویلنس اسٹڈی کے ڈیٹا کو استعمال کیا، جس میں 18 سال یا اس سے زائد عمر کے کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔

محققین نے کووڈ کے 2 ہزار مریضوں کے نمونے 15 اپریل 2020 سے پہلے اکٹھے کیے تھے اور ان کا موازنہ جون سے دسمبر 2020 کے دوران لیے گئے 629 نمونوں سے کیا۔

محققین نے تخمینہ لگایا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے 30 اور 60 دنوں بعد علامات کے تسلسل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اننہوں نے بتایا کہ ہم اس وقت وبا کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہمیں طویل المعیاد بنیادوں کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے 53 فیصد مریضوں میں 30 دن بعد بھی علامات کا تسلسل برقرار رہتا ہے جبکہ 35 فیصد میں یہ دورانیہ 60 دن یا اس سے بھی زیادہ تھا۔

تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں علامات 30 دن تک برقرار رہنے کا امکان 2.25 گنا اور 60 دن بعد 1.71 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد میں لانگ کووڈ کی علاماات 30 سے 60 دن تک موجود رہنے کا امکان 40 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اگرچہ طویل المعیاد علامات کا سامنا بزرگ افراد اور سنگین حد تک بیمار ہونے والے افراد کو زیادہ ہوتا ہے، تاہم 18 سے 34 سال کی عمر کے 21 فیصد افراد کو بھی اس کا تجربہ ہوا۔

تحقیق میں شامل معمولی حد تک بیمار ہونے والے 25 فیصد افراد نے بھی کووڈ کو شکست دینے کے 60 دن بعد علامات کے تسلسل کو رپورٹ کیا۔

محققین نے بتایا کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 کے شکار افراد کی بڑی تعداد کو طویل المعیاد بنیادوں پر علامات کا تجربہ ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہی کیوں نہ ہو، تاہم زیادہ خطرہ سنگین حد تک بیمار ہونے والے مریضوں کو ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں