چین کا وہ منصوبہ جو دنگ کردینے والا ہے

اپ ڈیٹ 24 مئ 2021
— فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
— فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

وہسے تو پٹریوں کے بغیر ٹرین کے دوڑنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، مگر چین میں ایسا ممکن کردیا گیا ہے۔

جی ہاں واقعی چین میں پٹریوں کے بغیر دوڑنے والی ٹرینیں کام کررہی ہیں جو خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

درحقیقت یہ ٹرین، ٹرام اور بس کا امتزاج ہے جو کسی بھی سڑک پر 500 مسافروں کے ساتھ سفر کرسکتی ہے۔

آٹونوموس ریل ریپڈ ٹرانزٹ (اے آر ٹی) نامی اس منصوبے کا آغاز 2017 میں وسطی چین کے صوبے زوزو میں ہوا تھا اور انہیں اسمارٹ بس قرار دیا گیا۔

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

یہ گائیڈڈ بسیں ٹرین، ٹرام اور بس کے درمیان کی کوئی سواری ہے، جس میں ربڑ کے ٹائرز ہیں اور وہ 70 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہیں۔

مکمل چارج پر یہ بس نما ٹرین 40 کلومیٹر کا سفر کرتی ہے جس کی لمبائی 30 میٹر ہے۔

اس میں 3 سے 5 بوگیاں ہوتی ہیں اور ہر بوگی میں سو مسافر سفر کرسکتے ہیں۔

یہ ٹرین خودکار سفر کرسکتی ہے مگر ڈرائیور بھی اسے اپنی مرضی سے چلاسکتے ہیں۔

اس میں موجود ایک سنسر سسٹم ڈرائیورز کو ٹرینیں ورچوئل لین میں رکھنے پر مدد فراہم کرتا ہے اور اگر وہ راستے سے ہٹ جائے تو ایک آٹومیٹک وارننگ سامنے آتی ہے۔

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

اس میں سڑک پر کسی سے ٹکراؤ سے انتباہ کرنے والا سسٹم بھی ہے جو ڈرائیور کو دیگر گاڑیوں سے محفوظ رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

اگر ڈرائیور اپنا سفر بدلنا چاہے تو ایک نیوی گیشن ڈیوائس متبادل روٹ پر ٹریفک کی جانچ پڑتال کرکے راستے کا تعین کرتی ہے، بالکل گوگل میپس کی طرح۔

2 سے 3 میل کا سفر کرنے کے لیے ٹرین کو صرف 20 سیکنڈ چارج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ 16 میل کے سفر کے لیے 10 منٹ چارج کیا جاتا ہے۔

ابھی اس سسٹم کو چین کے مختلف حصوں میں استعمال بھی کیا جارہا ہے اور قطر کے دارالحکومت دوہا میں 2022 کے فٹبال ورلڈکپ کے موقع پر بھی اس کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی پے۔

تبصرے (0) بند ہیں