لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی ہوچکی ہے۔ تاہم اس جنگ بندی سے 11 دن جاری رہنے والی جارحیت کے دل دہلادینے والے مناظر ذہنوں سے محو نہیں ہوں گے۔

ان 11 دنوں میں اسرائیل کی جانب سے پناہ گزینوں کے کیمپوں پر بمباری کی گئی، میزائیل حملوں میں بچے جاں بحق ہوئے، عمارتوں پر حملہ کرکے انہیں منہدم کردیا گیا اور لوگ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے بے بسی میں اپنے پیاروں کی لاشیں نکلتے ہوئے دیکھتے رہے۔ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں جو انسانی بحران پیدا ہوا اس سے ہر فلسطینی متاثر ہوا ہے۔

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی حالیہ فوجی مہم نے غاصب اسرائیل کی جانب سے گزشتہ 70 سال سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم اور ناانصافی کی داستان میں ایک اور باب کا اضافہ کردیا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کیا جارہا ہے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ فلسطینیوں کو نہ ختم ہونے والے ظلم، غیر قانونی گرفتاریوں اور اجتماعی سزاؤں کا سامنا ہے۔ غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے لیے پورے کے پورے محلوں کو ہی منہدم کردیا جاتا ہے اور لوگوں کو بے دخل کردیا جاتا ہے۔ غزہ کی 20 لاکھ پر مشتمل آبادی کو 14 سال سے اسرائیل کی جانب سے کی گئی ناکہ بندی اور سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔

ناانصافی پر مشتمل اس تاریخ کو دیکھا جائے تو حالات بگڑنے کے لیے بس ایک چنگاری ہی کافی تھی۔ غاصب قوت نے فلسطینیوں پر آگ برسانا شروع کی لیکن اسے ان لوگوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جن کا واحد ہتھیار اپنے مقصد پر غیر متزلزل یقین تھا۔

حالیہ کشیدگی کے کئی عوامل تھے۔ اسرائیلی پولیس کی جانب سے ماہِ رمضان میں مسجد اقصٰی میں موجود عبادت گزاروں پر بلا اشتعال حملہ کیا گیا۔ دوسری جانب مقبوضہ مشرقی یروشلم کے علاقے شیخ جراح میں فلسطینیوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکالا جانے لگا۔

مزید پڑھیے: 'جھڑپوں' کو روکنے کیلئے اسرائیل اور حماس جنگ بندی پر متفق

جواباً غزہ اور مشرقی کنارے کے شہروں اور دیہاتوں میں بڑے عوامی مظاہرے ہوئے جنہیں اسرائیلی پولیس نے سختی سے کچل دیا۔ اس صورتحال میں حماس کی جانب سے راکٹ داغے گئے جس کے بعد اسرائیل کے فضائی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا جن کے نتیجے میں 65 بچوں سمیت 240 سے زائد فلسطینوں نے اپنی جانیں گنوا دیں۔

یہ قتلِ عام 11 روز تک جاری رہا۔ اس دوران او آئی سی کی جانب سے مذمتی بیان تو جاری ہوا لیکن کوئی مشترکہ اقدام سامنے نہیں آیا۔ یہ بیان لفاظی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ جن عرب ممالک نے حال ہی میں اسرائیل سے تعلقات قائم کیے ہیں ان سے یہ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معاملات معمول پر لانے کی ان کی پالیسی نے ہی اسرائیل کو اس قسم کی جارحیت کے ارتکاب کا حوصلہ فراہم کیا ہو۔

مزید پڑھیے: القدس کی مکمل آزادی تک سلامتی و استحکام ممکن نہیں، او آئی سی

امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے اسرائیل کی حمایت جاری رکھی اور فلسطینیوں کی چیخ و پکار کو نظر انداز کرتے رہے۔ امریکی حکام نے کچھ دنوں بعد ’کشیدگی میں کمی لانے‘ کا مطالبہ کیا۔

اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس کو بھی امریکا کی وجہ سے کچھ دنوں کی تاخیر سے منعقد کیا گیا اور جب یہ اجلاس ہوا بھی تو امریکا کی جانب سے بقیہ تمام 14 ممالک کے متفقہ بیان کو روک دیا گیا۔ اس بیان میں کشیدگی میں کمی لانے، فلسطینی خاندانوں کی ان کے گھروں سے بے دخلی روکنے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس عمل نے امریکا کو اقوامِ متحدہ میں تنہا کردیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا۔

ان میں سے کوئی بھی چیز حیران کن نہیں تھی۔ امریکا اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست ہونے کے ناطے ایک طویل عرصے سے اپنے قریبی حلیف کی حفاظت کرتا آیا ہے۔ دوسری جانب وہ فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار رکھتا ہے۔ یہ وہی انسانی حقوق ہیں کہ اگر دنیا میں کہیں اور ان کی خالف ورزی ہو تو امریکا اس پر اپنی آواز اٹھاتا ہے۔ کئی مغربی ممالک نے حماس کے حملوں کے جواب میں اسرائیل کے دفاع کے حق کے امریکی بیانیے کی حمایت کی ہے۔

بہرحال، سیکیورٹی کونسل کے دو غیر مستقل ممبر ممالک ناروے اور آئرلینڈ نے اسرائیلی فضائی حملوں میں بچوں سمیت عام شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اسرائیل نئی بستیوں کی تعمیر بند کرے۔ روس نے اسرائیل کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں عام شہریوں کی مزید ہلاکتیں کسی صورت قبول نہیں کی جائیں گی اور یہ کہ کشیدگی کو فوری ختم کیا جائے۔

اس حالیہ کشیدگی کے حوالے سے جہاں کچھ روایتی ردِعمل سامنے آئے وہیں کچھ چیزیں خلافِ معمول تھیں اور وہ نتیجہ خیز بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ پہلا فرق تو بڑے پیمانے پر ہونے والے وہ احتجاج تھے جو بیک وقت مقبوضہ علاقوں اور اسرائیل کے اندر منعقد ہوئے۔

اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں نے کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت نہیں کی۔ یہاں تک کہ نیو یارک ٹائمز کی متعصبانہ رپورٹس میں بھی یہ کہا گیا کہ یہ مظاہرے ’اب مزید قوت حاصل کر رہے ہیں اور اسرائیل کے لیے خطرہ بننے کے نئے راستے تلاش کر رہے ہیں‘۔

گارجیئن نے لکھا کہ اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں کی جانب سے ہونے والی مزاحمت نے اسرائیل کے اندر ’ایک نیا محاذ‘ کھول دیا ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے جو ماضی میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ اسرائیل کے اندر موجود اس غم و غصے کی وجہ شاید اسرائیلی پالیسیاں ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں عرب شہریوں کے خلاف اسرائیل کی نسل پرستانہ پالیسیوں کا ذکر کیا تھا۔

اس بار جو دوسرا فرق دیکھنے کو ملا وہ وبا کے دنوں میں فلسطینیوں کے ساتھ دنیا بھر میں ہونے والا عوامی یکجہتی کا مظاہرہ تھا۔ مسلم ممالک میں تو اس کی امید کی جارہی تھی لیکن پھر بھی ان مظاہروں میں شریک عوام کی تعداد بے پناہ تھی۔ تاہم اس مرتبہ امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک میں بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بڑے عوامی مظاہرے ہوئے۔ عالمی سطح پر مظاہروں کی یہ لہر حکومتوں اور خصوصاً مغربی حکومتوں کی پالیسیوں سے بہت مختلف ہے۔

امریکی کانگریس اور دیگر مغربی ایوانوں میں اٹھنے والی جرأت مندانہ آوازیں ان کے لیے ایک تنبیہہ ہیں۔ صدر بائیڈن کو بھی اپنے مؤقف کی وجہ سے ترقی پسند ڈیموکریٹس کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ’مضبوط ترین دوستی‘ نے امریکا اور خاص طور پر ’ڈیموکریٹک پارٹی کو‘ ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مثال کے طور پر گیلپ کے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ ڈیموکریٹس کی نصف تعداد کا خیال ہے کہ امریکا کو فلسطین کے بجائے اسرائیل پر پیچھے ہٹنے اور اپنے مؤقف میں نرمی لانے کے لیے زور دینا چاہیے۔

مزید پڑھیے: وہ عوامل جنہوں نے اسرائیل کو ’ظلم‘ جاری رکھنے کا حوصلہ دیا!

اگرچہ جنگ بندی کی وجہ سے اسرائیلی جارحیت تو رک گئی ہے تاہم یہ صرف ایک طوفان سے پہلے کی خاموشی ہی ہوگی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ آج تک حل طلب ہے اور یہ بین الاقوامی برادری کی مشترکہ ناکامی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اور جنرل اسمبلی کی کئی قراردادوں میں اسرائیل سے فلسطین پر ناجائز قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانا مسئلہ ہے۔ اس کا حل بھی کئی قراردادوں میں بار بار دہرایا جاچکا ہے۔ اس کا حل ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر مشتمل دو ریاستی حل ہی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں سابق امریکی صدر ٹرمپ کی حوصلہ افزائی سے اسرائیل نے دو ریاستی ’حل‘ کو چھوڑ کر ایک ریاستی ’حل‘ کو اپنا لیا ہے اور غیر قانونی بستیوں کی تعمیر میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ یہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 2334 اور بستیوں کی تعمیر روکنے کے عالمی مطالبات کی خلاف ورزی ہے۔

ان قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونا دراصل ان ممالک پر ایک طرح سے فرد جرم ہے جو مثبت تبدیلی لانے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن اسرائیل کی ہمدردی اور بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد اور عالمی نظام کے احترام کے دعوؤں کے برخلاف صورتحال کو بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔


یہ مضمون 24 مئی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں