لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

سیاسی طوفان گزرچکا ہے اور بیانیہ تبدیل ہوچکا ہے۔ فوجی قیادت سے دشمنی ختم ہوچکی ہے اور اب دارالحکومت پر چڑھائی کرنے کی باتیں بھی نہیں کی جارہی ہیں۔ اب واپس معمول کی سیاست شروع ہوچکی ہے اور آئندہ انتخابات کو ہدف بنالیا گیا ہے۔ اب چچا کی واپسی کے بعد بھتیجی نے خود کو منظر سے ہٹا دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاست میں اب ایک خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔

سابق وزیرِاعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی جانب سے فوجی قیادت کے حوالے سے سخت بیانات اور اس پورے نظام کو گرا دینے کی باتوں کے بعد اب مفاہمت کی سیاست کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پر حملے تو اب بھی جاری ہیں لیکن نظام گرانے کے حوالے سے مزید کوئی بات نہیں کی جارہی۔ شہباز شریف کے آنے کے بعد حکمتِ عملی میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ٹوٹنے اور عوامی تحریک کے ذریعے حکومت گرانے میں ناکامی کے بعد یہ تبدیلی ناگزیر تھی۔ اس اتحاد کے ٹوٹنے کی ایک وجہ مریم نواز کی سخت گیر پالیسی تھی۔ وہ اپنے چچا اور کزن کی عدم موجودگی میں جماعت کا چہرہ بن چکی تھیں۔

مزید پڑھیے: کیا پھر ایک ’تبدیلی‘ آنے کو ہے؟

بلاشبہ انہیں شریف خاندان کی سیاسی میراث کا وارث سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے جماعت کو ایک نیا تحرک تو دیا لیکن ان میں سیاسی بلوغت کی کمی پائی جاتی ہے۔ یہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کی بہت بڑی غلط فہمی تھی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانیہ اختیار کرکے موجودہ نظام کے خلاف کوئی بڑی عوامی تحریک شروع کرسکیں گے۔ نہ صرف یہ حکمتِ عملی حکومت گرانے میں ناکام رہی بلکہ اس نے حزبِ اختلاف کو بھی کمزور کردیا۔

یہ بات واضح ہے کہ (ن) لیگ کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں سے متعلق دباؤ کے سبب نہ صرف پی ڈی ایم ٹوٹ گئی بلکہ ان کی اپنی جماعت کے اندر بھی دُوریوں میں اضافہ ہوا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں جماعت کی شمولیت سے مسلم لیگ (ن) اور حزبِ اختلاف کو کہیں زیادہ سیاسی فوائد میسر آئے ہیں۔

حزبِ اختلاف کی جانب سے کیا جانے والا کلین سوئپ پی ٹی آئی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا ہے۔ شاید اس وجہ سے بھی مسلم لیگ (ن) کو یہ احساس ہوا ہو کہ نظام گرانے کی کوشش کرنے کے بجائے انتخابی سیاست پر توجہ دینا زیادہ سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ پی ڈی ایم کی جانب سے کیے جانے والے بڑے عوامی اجتماعات کے بغیر انتخابی کامیابیاں ممکن نہیں تھیں۔

لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ انتخابی مقابلوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان فاصلوں کو مزید بڑھادیا ہے۔ لیکن اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت سیاسی بلوغت رکھنے والوں کے پاس ہوتی تو شاید ان اختلافات سے بہتر طریقے سے نمٹتی اور پی ڈی ایم کو ٹوٹنے سے بچالیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں مسلم لیگ (ن) کے گڑھ لاہور میں منعقدہ ریلی میں عوام کی خاطر خواہ شرکت نہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی حکمتِ عملی کو تبدیل ہونا ہی تھا۔

درحقیقت مسلم لیگ (ن) کے لیے حکومت ختم کرنے کے لیے یہ فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ کچھ رہنماؤں کا خیال تھا کہ پنجاب کے مرکز میں پاور شو سے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو بھی غیر جانب دار کیا جاسکے گا۔ لیکن کم حاضری کی وجہ سے وہ مرحلہ غیر مؤثر رہا۔

حکومت کو مستعفی ہونے کے لیے 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن دینا بھی ایک بڑی غلطی تھی جس سے پارٹی کی حکمتِ عملی پر سوالات کھڑے ہوئے۔ اس تمام صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کے اندر موجود اختلافات کھل کر سامنے آئے اور حزبِ اختلاف کے اتحاد میں موجود دُوریوں میں بھی مزید اضافہ ہوا۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں اپوزیشن اتحاد مثبت تبدیلی کیوں نہیں لاتے؟

پی ڈی ایم کی کچھ جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ن) نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر زور دیا۔ تاہم پیپلز پارٹی کی رضامندی نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ لاہور میں ہونے والی ناکامی اور پی ڈی ایم میں پڑنے والی دراڑ سے حکومت کو وہ سیاسی فائدہ حاصل ہوا جس کی اسے شدید ضرورت تھی۔ شہباز شریف کی قید کی وجہ سے مکمل اختیارات مریم نواز کے ہاتھ میں تھے۔

لیکن یہ بات واضح تھی کہ مریم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور بڑے عوامی اجتماعات منعقد کرنے کی اہلیت کے باوجود عوامی تحریک کی مدد سے حکومت گرانے کی ان کی حکمتِ عملی کام نہیں کر رہی تھی۔ اس دوران ضمنی انتخابات میں جیت نے جماعت کے اندر محتاط حکمتِ عملی اختیار کرنے کی رائے کو مضبوط کیا۔

جماعت کے اندر کئی لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ نظام کو چھیڑے بغیر پنجاب میں باآسانی اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے حکومت میں واپس آسکتے ہیں۔ کئی رہنماؤں کے لیے اسٹیبلشمنٹ مخالف حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنا ضروری تھا۔ جماعت کا بیانیہ پہلے ہی کمزور پڑچکا تھا اور جماعت کے رہنما پی ٹی آئی حکومت پر توجہ مرکوز رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی بات کر رہے تھے۔

شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی سے سمت کی تبدیلی کو مزید تقویت ملی۔ اگرچہ پارٹی کی مجموعی قیادت نواز شریف کے پاس ہی ہے لیکن زمین پر کنٹرول شہباز شریف کے پاس ہے۔ ان کا انداز بہت مختلف ہے۔ شہباز شریف نے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو دعوت دے کر پی ڈی ایم کو دوبارہ متحد کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کو اتحاد سے باہر نکال دیا گیا کیونکہ انہوں نے اپوزیشن کی حکمتِ عملی پر مسلم لیگ (ن) سے اختلاف کیا تھا۔ اب ان دونوں جماعتوں کا دوبارہ اس اتحاد کا حصہ بننا آسان نہیں ہوگا لیکن یہ کئی معاملات پر ایوان کے اندر مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دے سکتی ہیں۔

مزید پڑھیے: ’حالات کسی طوفان کے آنے کی خبر دے رہے ہیں‘

تاہم یہ بات حتمی ہے کہ شہباز شریف کی رہائی کے بعد حکمتِ عملی میں آنے والی تبدیلی سے جماعت کو ٹوٹنے کا خطرہ نہیں ہے۔ جماعت میں اندرونی رسہ کشی کے باوجود جماعت کے ٹوٹنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات میں دونوں بیانیے ہی مسلم لیگ (ن) کے لیے مفید ہیں۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی ووٹ کے حصول کے لیے ضروری ہیں لیکن شہباز شریف کی مفاہمانہ حکمتِ عملی اقتدار حاصل کرنے کے لیے معاون ہوگی۔

یہ بات واضح ہے کہ سیاسی جماعتیں ذہنی طور پر انتخابات کے لیے تیار ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی پورے ملک اور خصوصی طور پر پنجاب میں ناقص کارکردگی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اپنی کامیابی کے حوالے سے پُراعتماد ہے۔ پی ٹی آئی کی اندرونی چپقلش سے بھی مسلم لیگ (ن) کا حوصلہ بڑھا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے میں کمی لانا واضح طور پر مسلم لیگ (ن) کی انتخابی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جو اس کے دوبارہ اقتدار کے حصول میں مددگار ہوگا۔ لیکن ابھی اگلے انتخابات میں بھی خاصا وقت باقی ہے اور کچھ سیاسی غیر یقینی بھی موجود ہے۔


یہ مضمون 26 مئی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں