فیصل آباد اور سکھر میں پولیس عہدیداروں نے اپنے شہروں میں نابالغ مسیحی لڑکی کے مبینہ ریپ اور تشدد کی رپورٹس کی تردید کردی، جس کے حوالے سے حکام سے ملزمان کے خلاف سختی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پرگزشتہ دو دن سے جسٹسس فار سنیتا مسیح ٹرینڈ پر رہا اور کئی معروف شخصیات، سیلبریٹیز اور سول سوسائٹی اراکین نے بھی واقعے کے حوالے سے ٹوئٹس کیے تھے اور وزیراعظم عمران خان سے نوٹس لینے اور لڑکی کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

ٹوئٹر پر چلنے والے ٹرینڈ کا تجزیہ کرنے والی ویب سائٹ سوشل بیئرنگ ڈاٹ کام کے مطابق ہش ٹیگ ابتدائی طور پر 24 مئی کو تقریباً شام 5 بجے سامنے آیا تھا اور اگلے روز ٹرینڈ پر آیا اور ہیش ٹیگ صارفین کی جانب سے سیکڑوں مرتبہ ٹوئٹ کیا گیا۔

ٹرینڈ چلانے والے ٹوئٹر صارفین کی اکثریت پاکستان سے ہےلیکن بھارت، امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا سے بھی صارفین نے حصہ لیا۔

اداکارہ ارمینہ رانا خان نے دعویٰ کیا کہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی 14 سالہ لڑکی کا مبینہ طور پر ریپ کیا گیا اور کلمہ پڑھنے کا کہا گیا جبکہ لڑکی نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو اس کے سر کے بال صاف کردیے گئے۔

معاملہ جب وزیراعلیٰ پنجاب کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا اظہر مشوانی کی نوٹس میں لایا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ فیصل میں نہیں بلکہ سندھ کے ضلع شکار پور میں پیش آیا ہے۔

دوسری جانب فیصل آباد اور شکار پور کے پولیس عہدیداروں نے مذکورہ شہروں میں اس طرح کے واقعے کی رپورٹ مسترد کردی۔

فیصل آباد سٹی پولیس افسر (سی پی او) محمد سہیل چوہدری نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ لڑکی کا ریپ ہوا ہے اور اسلام میں داخل ہونے کے لیے زور ڈالا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ حقائق کے منافی خبر ہے جبکہ یہ واقعہ ضلع سکھر میں پیش آیا اور ایس ایس پی سکھر عرفان سموں بھی اس کی کھوج میں ہیں۔

سکھر کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) فداحسین نے یکسر مسترد کردیا اور کہا کہ مسیحی لڑکی کے ساتھ کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ واقعہ غالباً فیصل آباد میں پیش آیا ہے، سکھر میں نہیں، اس حوالے سے تاحال کسی نے شکایت نہیں کی، اگر کوئی شکایت درج ہوتی ہے یا کوئی ثبوت ہمارے سامنےآتا ہے تو ہم اس پر کارروائی کے لیے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آیا ہے تو سکھر پولیس خاتون یا لڑکی کے مذہب کے بلاتفریق کارروائی کے لیے تیار ہے'۔

دوسری جانب سماجی کارکن جبران ناصر نے لوگوں سے اپیل کی کہ اس خبر کو پھیلانے سے پہلے تصدیق کریں۔

انہوں نے کہا کہ مسیحی اور ہندو لڑکیوں سے زیادتی کے واقعات حقیقت ہیں لیکن شرپسند عناصر بھی موجود ہیں جو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں