ٹوئٹر کا بھارتی حکومت سے آزادی اظہار رائے کا احترام کرنے پر زور

اپ ڈیٹ 27 مئ 2021
سوشل میڈیا سائٹس بشمول ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ کو اس قانون کی تعمیل کے لیے 3  ماہ کا وقت دیا گیا تھا —فائل فوٹو: اے پی
سوشل میڈیا سائٹس بشمول ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ کو اس قانون کی تعمیل کے لیے 3 ماہ کا وقت دیا گیا تھا —فائل فوٹو: اے پی

نئی دہلی میں واقع ٹوئٹر کے دفتر پر بھارتی پولیس کے دورے کے بعد مائیکروبلاگنگ سائٹ نے کہا ہے کہ انہیں بھارت میں اپنے عملے کے تحٖفظ سے متعلق تشویش ہے اور ٹوئٹر کی جانب سے بھارتی حکومت سے آزادی اظہار رائے کا احترام کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ان دنوں ٹوئٹر اور بھارتی حکومت کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور مودی انتظامیہ کی جانب سےبھارتی وزیراعظم کے خلاف تنقید سمیت کورونا وائرس کے بحران سے متعلق کچھ مواد ہٹانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

امریکی خبررساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق ٹوئٹر نے کہا ہے کہ ہمیں پولیس کی جانب سے دھمکی آمیز ہتھکنڈوں کے استعمال سے تشویش ہے اور جن لوگوں کو ہم خدمات فراہم کرتے ہیں ان کے لیے آزادی اظہار رائے کا خدشہ ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: نئے سوشل میڈیا قوانین کے خلاف واٹس ایپ کا عدالت سے رجوع

پیر کو بھارتی پولیس نے نئی دہلی میں واقع ٹوئٹر کے دفتر کا دورہ کیا تھا اور ایک نوٹس جاری کیا تھا جس میں بھارتی حکومت سے وابستہ افراد کی کچھ ٹوئٹس کو جوڑ توڑ پر مبنی قرار دینے پر جواب طلب کیا گیا تھا۔

پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹوئٹر کے پاس کچھ ایسی معلومات ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہے جس کی بنیاد پر ٹوئٹر نے اس مواد کو ایسا قرار دیا۔

گزشتہ روز معروف میسجنگ ایپلی کیشن واٹس ایپ نے 26 مئی سے نافذ ہونے والے سوشل میڈیا قوانین کے خلاف دہلی میں بھارتی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔

دہلی ہائی کورٹ میں دائر مقدمے میں کہا گیا تھا کہ نافذ کیے گئے قوانین میں سے ایک بھارت کے آئین میں موجود رازداری کے حقوق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس میں سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکام کے مطالبے پر کسی 'انفارمیشن سے وابستہ' پہلے شخص کی نشاندہی کرنی ہوگی۔

یہ قانون نافذ ہونے سے 90 روز قبل جب فروری میں اسے پیش کیا گیا تھا اسی وقت سے کمپنیوں کو ان پر شدید شکوک و شبہات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کیا بھارت میں آج سے فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ پر پابندی لگ جائے گی؟

بھارت کی وزارت ٹیکنالوجی کی جانب سے نافذ کی گئیں انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز اور ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ کے ذریعے 'نمایاں سوشل میڈیا انٹرمیڈیریز' کو پابند کیا گیا ہے اگر وہ ان کی تعمیل پر ناکام ہوئے تو قانونی چارہ جوئی اور مجرمانہ استغاثہ کے تحفظ سے محروم ہوجائیں گے۔

اس حوالے سے جاری ایک بیان میں ٹوئٹر نے کہا کہ اپنی سروس کو دستیاب رکھنے کے لیے ہم بھارت کے اس قانون پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔

ٹوئٹر نے کہا کہ 'جس طرح ہم دنیا بھر میں کرتے ہیں، اسی طرح ہم شفافیت کے اصولوں، سب آواز کو بااختیار بنانے کے عزم اور آزادی اظہار رائے کے تحفظ اور قانون کے تحت رازداری کے اصولوں پر سختی سے عمل جاری رکھیں گے'۔

ناقدین کی جانب سے مودی حکومت کو سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر تنقید کو خاموش کرانے کا الزام لگایا جاتا ہے تاہم حکمراں جماعت کے سینئر رہنما اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارت کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو 'انڈین ویریئنٹ' سے متعلق مواد ہٹانے کی ہدایت

نئے قواعد میں یہ تقاضے بھی شامل ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیاں کلیدی تعمیل کے لیے بھارتی شہریوں کو تعینات کریں، قانونی حکم نامے کے 36 گھنٹوں کے اندر اندر مواد کو ہٹایا جائے اور شکایات کا جواب دینے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی انہیں پورنوگرافی کے خاتمے کے لیے خود کار عمل بھی استعمال کرنا چاہیے۔

سوشل میڈیا سائٹس بشمول ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ کو اس قانون کی تعمیل کے لیے 3 ماہ کا وقت دیا گیا تھا جو 26 مئی کو ختم ہوگیا۔

تبصرے (0) بند ہیں