متنازع مردم شماری کا معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے، حکومتِ سندھ

اپ ڈیٹ 30 مئ 2021
وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے صدر اور وزیر اعظم کو بھی مراسلہ ارسال کیا ---فائل فوٹو: فہیم
وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے صدر اور وزیر اعظم کو بھی مراسلہ ارسال کیا ---فائل فوٹو: فہیم

کراچی: حکومت سندھ نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے منظور کردہ مردم شماری کے نتائج کے خلاف پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کے لیے آئین کے متعلقہ آرٹیکل کے تحت ایک ریفرنس دائر کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ نے سی سی آئی کے منظور کردہ مردم شماری نتائج کو متنازع اور ناقص قرار دیا ہے۔

مزید پڑھیں: مردم شماری 2017 پر صوبوں کے تحفظات دور کیے جائیں، وزیر اعلیٰ سندھ

سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کو لکھے گئے مراسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بتایا کہ متنازع اور ناقص مردم شماری 2017 کی منظوری پر حال ہی میں سندھ کابینہ کے اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا اور متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملے کو کسی حتمی فیصلے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے حوالے کیا جائے۔

مراسلے میں کہا گیا کہ ’آپ سے درخواست کی گئی ہے کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا جائے‘۔

وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے صدر اور وزیر اعظم کو بھی مراسلہ ارسال کیا تاکہ حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے امور کو حل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا فوری مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے۔

مراسلے میں کہا گیا کہ بدقسمتی سے مردم شماری کے نتائج پر وفاقی کابینہ کی تشکیل کردہ کمیٹی نے صوبوں کے خدشات کو حل کرنے یا ملاقات کرنے کے بجائے ’یکطرفہ‘ رپورٹ پیش کی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ: حکومت کو مردم شماری کے نتائج کی جلد تکمیل کا حکم

انہوں نے کہا کہ ’یہ اور بھی بدقسمتی کی بات ہے کہ وفاقی کابینہ نے 23 دسمبر 2020 کو مذکورہ رپورٹ کو منظور کرلیا‘۔

مراسلے میں باور کرایا گیا کہ جب کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس وقت وزیر اعلیٰ سندھ نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

مراسلے میں کہا گیا کہ منصوبہ بندی اور ترقی کے وفاقی وزیر نے اس نقطہ نظر کی حمایت کی ہے لہذا سی سی آئی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ کمیٹی صوبوں کے خدشات کو دور کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہاں یہ بتانا ہمارا فرض بھی ہے کہ ہم سی سی آئی کے فیصلوں کو تسلیم کریں گے کیونکہ وزیر اعظم جو نہ صرف وفاقی حکومت کے سربراہ ہیں بلکہ سی سی آئی کے چیئرمین بھی ہیں۔

مراسلے میں کہا گیا کہ بدقسمتی سے سی سی آئی کی تشکیل کے بعد پہلی مرتبہ کسی بھی قومی مفاد کے حامل مسئلے پر فیصلہ متفقہ طور پر نہیں بلکہ اکثریت کے ذریعے لیا گیا۔

مراسلے میں ملٹی پل انڈیکٹر کلسٹر سروے کے حوالے سے کہا گیا کہ سندھ اور بلوچستان میں ایک گھر کے اراکین کی اوسط تعداد بالترتیب 7.2 اور 7.7 ہے تاہم مردم شماری کے نتائج کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں اوسطاً گھرانوں میں بالترتیب 5.64 اور 7.06 افراد شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نئی مردم شماری کا مطالبہ

مراسلے کے مطابق ’اس کی بنیاد پر سندھ کی مجموعی آبادی 2017 کی مردم شماری 4 کروڑ 78 لاکھ 54 ہزار 510 کے مقابلے میں 6 کروڑ 10 لاکھ 41 ہزار 938 ہوگی۔

مراسلے میں مزید کہا گیا کہ بالکل اسی طرح بلوچستان میں مردم شمار کی رو سے ایک کروڑ 23 لاکھ 35 ہزار 129 کے مقابلے میں ایک کروڑ 34 لاکھ 44 ہزار 153 ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مجموعی آبادی بھی 2017 مردم شماری کے مطابق 20 کروڑ 6 لاکھ 88 ہزار 214 کے مقابلے میں 2 کروڑ 10 لاکھ 47 ہزار 57 ہوگی۔

مراسلے میں کہا گیا کہ ’اگر وفاقی یا صوبائی حکومت کونسل کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہے تو معاملے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے حوالے کردے جس کا فیصلہ حتمی ہوگیا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں