حکومت کا 'کے الیکٹرک' کو مختلف کمپنیوں میں تقسیم کرنے پر غور

اپ ڈیٹ 31 مئ 2021
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بجلی و پیٹرولیم تابش گوہر نے تحریری طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بجلی و پیٹرولیم تابش گوہر نے تحریری طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: حکومت، کے الیکٹرک کو کسی غیرملکی فرم کو بطور ایک کمپنی منتقل کرنے کے بجائے علیحدہ جنریشن، ٹرانسمیشن اور تقسیم کار کمپنیوں میں بدلنے پر غور کررہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں بجلی کی ناقص فراہمی پر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) اور کے الیکٹرک کے مابین حالیہ تنازع کے بعد نئی پالیسی پر غور شروع کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: کے الیکٹرک کا اضافی 40 ارب روپے کا مطالبہ، کراچی میں بجلی مزید مہنگی ہونے کا امکان

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بجلی و پیٹرولیم تابش گوہر نے تحریری طور پر اس بات کی تصدیق کی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے مختلف صنعتی ایسوسی ایشنز کے 'الگ الگ جنریشن، ٹرانسمیشن اور ایک سے زیادہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے حوالے کرنے کی سفارش کی تائید کی ہے'۔

ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات میگو کو ایک مراسلے میں وزیراعظم کے معاون نے لکھا کہ 'اس کا مطلب یہ ہے کہ اجارہ داری کنٹرول اور انتظامیہ کی ناکامی کی ذمہ داری کسی ایک پر ڈالنے کے بجائے مختلف نجی اداروں کے زیر انتظام معاملات چلائے جائیں'۔

انہوں نے کہا کہ انہیں وزیر اعظم آفس سے اس تجویز کا جواب دینے کے لیے کہا گیا ہے۔

تابش گوہر نے وزیر اعظم کے ساتھ اپنے خط کے مندرجات، نجکاری سے متعلق کابینہ کمیٹی کے ممبران کے علاوہ وزیر خزانہ، توانائی اور نجکاری کے علاوہ نیپرا کے چیئرمین بھی شامل کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کے-الیکٹرک کی فروخت پر تعطل کو ختم کرنے کیلئے سعودی ٹائیکون کا دورہِ پاکستان

انہوں اس امرپر زور دیا کہ 2 کروڑ لوگوں کو بجلی کی ضروری خدمت فراہم کرنے والے مربوط اور اجارہ دار فراہم کنندہ کی نجکاری ایک ’پالیسی غلطی‘ تھی۔

اس سے کے الیکٹرک کے غیر ملکی سرمایہ کاروں خصوصاً سعودی بزنس ٹائکون کا ردعمل سامنے آسکتا ہے جنہوں نے حالیہ مہینوں میں وزیر اعظم عمران خان اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کی تھی۔

جس میں چین کی شنگھائی الیکٹرک لمیٹڈ کو 66 فیصد سے زیادہ کے حصص کی آسانی سے منتقلی کے لیے حمایت حاصل کی گئی تھی۔

تابش گوہر نے کہا کہ حکومت کو یقین ہے کہ الگ کرنے سے قبل کے الیکٹرک کے لیے بجلی کی مجموعی لاگت اور معاشی آرڈر بھیجنے کی بنیاد پر حکومتِ پاکستان پر سبسڈی کا بوجھ 'پیداواری یونٹس اور اس کے آئی پی پیز کو قومی نیٹ ورک میں ضم کرکے کم ہونا چاہیے'۔

مزید پڑھیں: کے-الیکٹرک نے صارفین کے بلوں میں اضافے سے متعلق خبریں مسترد کردیں

تابش گوہر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے کراچی کو نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی 650 میگاواٹ سے 2000 میگاواٹ تک بڑھا کر اس سمت میں کام کرنا شروع کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تجارتی بنیادوں پر بجلی کی خریداری کے معاہدے پر دستخط تاحال زیر التوا ہے۔

وزیر اعظم کے معاون نے کہا کہ دیگر تقسیم کار کمپنیوں کی طرح 2023 میں اجارہ داری ختم ہونے پر حکومت کو ایک مرتبہ پھر کے الیکٹرک کے صارفین کو ریٹیل سپلائی کے انتخاب کا موقع دینا پڑا جو حکومت کی پالیسی کے عین مطابق تھا۔

ایف پی سی سی آئی نے وزیر اعظم کو باور کرایا تھا کہ شعبہ الیکٹرک میں موجودہ اجارہ داری سے قومی خزانے کو سیکڑوں ارب لاگت کا نقصان پہنچا ہے اور ملکیت کی تبدیلی سے قبل ضروری فیصلے نہ کیے گئے تو نتائج مایوس کن ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے ای ایس سی) کو اس اُمید کے ساتھ نجکاری کردی گئی کہ اس سے نظام میں کارکردگی میں بہتری آئے گی اور اس کے نتیجے میں شہریوں اور کراچی سمیت حب اور دھابیجی کی صنعتوں کے لیے کم محصولات وصول ہوں گے جبکہ یہ علاقہ کے ای ایس سی کو لائسنس یافتہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں