جیو نے حامد میر کو آف ایئر کرنے کے حوالے سے اپنا مؤقف واضح کردیا

01 جون 2021
چند روز قبل حامد میر نے اسد علی طور پر حملے کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کے دوران تندو تیز الفاظ میں تقرر کی تھی — فائل فوٹو / اے ایف پی
چند روز قبل حامد میر نے اسد علی طور پر حملے کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کے دوران تندو تیز الفاظ میں تقرر کی تھی — فائل فوٹو / اے ایف پی

جیو/جنگ گروپ نے میزبان حامد میر کو آف ایئر کرنے کے اقدام پر صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اظہار مذمت کے بعد اپنا مؤقف جاری کردیا۔

ایک روز قبل حامد میر نے بی بی سی اردو کو بتایا گیا تھا کہ انہیں جیو نیوز کی انتظامیہ کی طرف سے مطلع کردیا گیا اور وہ ہفتے میں پانچ روز نشر ہونے والے اپنے شو 'کیپٹل ٹاک' کی میزبانی کے لیے 'پیر کو آن ایئر نہیں جائیں گے'۔

اپنے مؤقف میں جیو/جنگ گروپ نے کہا کہ 'سینئر صحافی نے تقریر کی جس کے نتیجے میں معاشرے کے مختلف حلقوں کا شدید ردعمل سامنے آیا'۔

گروپ نے کہا کہ 'ہم ایڈیٹوریل کمیٹی اور وکلا کے ساتھ اس صورتحال کا جائزہ لیں گے کہ پالیسی یا قانون کی کوئی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی، اس دوران کیپٹل ٹاک کی میزبانی عارضی میزبان کے سپرد کی جارہی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایس آئی کا صحافی پر حملے سے اظہارِ ’لاتعلقی‘

بیان میں کہا گیا کہ 'ہم اپنے ناظرین اور قارئین کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ملک میں کسی بھی دوسرے میڈیا ادارے کے مقابلے میں کرپشن، توہین مذہب اور غداری جیسے سیکڑوں جھوٹے الزامات پر جیو/جنگ گروپ کو بند کیا گیا، ہمارے صحافیوں کو مارا پیٹا گیا، اپنے ناظرین اور قارئین کو حالات سے باخبر رکھنے میں ادارے کو 10 ارب روپے سے زائد کا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا'۔

ادارے نے کہا کہ 'تاہم گروپ اور اس کے ایڈیٹرز کے لیے مشکل ہوگیا کہ وہ اپنے دائرہ اختیار سے باہر کی گئی تقریر یا تحریر کے مواد کی ذمہ داری کیسے لیں، جو واقعتاً ایڈیٹوریل ٹیم نے دیکھا ہو اور نہ ہی اس کی منظوری دی ہو'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حامد میر اور دوسرے صحافی اپنے ساتھی صحافی پر حملے کے حوالے سے جس غم و غصے یا مایوسی کا شکار ہوئے اس پر مشترکہ اور شدید تشویش ہے لیکن صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے بہتر طریقے اور ذرائع موجود ہیں'۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان میں صحافیوں کی بہت بڑی تعداد عوام کے جاننے کے حق کے لیے لڑتے ہوئے جانوں اور آزادی سے محروم ہوئی، انسانی اور میڈیا حقوق کی عالمی تنظیمیں حکومت سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ صحافیوں کو ایسے اقدامات کے خلاف تحفظ دیا جائے مگر اب تک کسی حکومت نے ایسا نہیں کیا۔

واضح رہے کہ چند روز قبل حامد میر نے صحافی اور یوٹیوبر اسد علی طور پر حملے کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کے دوران تندو تیز الفاظ میں تقرر کرتے ہوئے ملک میں صحافیوں پر مسلسل حملے اور تشدد کرنے والوں کے احتساب کا مطالبہ کیا تھا۔

حامد میر نے 'بی بی سی' اردو کو بتایا کہ 'انتظامیہ نے مجھ سے نیشنل پریس کلب کے باہر تقریر کی وضاحت یا تردید کرنے کو کہا، جس پر میں نے ان سے پوچھا کہ ایسا کرنے کے لیے آپ سے کس نے کہا ہے؟'

مزید پڑھیں: معروف صحافی حامد میر قاتلانہ حملے میں زخمی

انہوں نے کہا کہ 'میں نے انتظامیہ سے کہا کہ اگر وہ اسد طور پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کر لیتے ہیں تو میں وضاحت چھوڑیں، معافی بھی مانگنے کو تیار ہوں'۔

علاوہ ازیں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے حامد میر یا جیو کا نام لیے بغیر ٹوئٹ میں کہا کہ 'ہمارا نشریاتی اداروں کے اندرونی فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'کس نشریاتی ادارے نے کیا پروگرام نشر کرنا ہے اور اس کی ٹیم کیا ہوگی یہ فیصلہ ادارے خود کرتے ہیں، تمام ادارے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اپنی پالیسی بنانے کے خود ذمہ دار ہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں