امریکا کے انٹیلی جنس حکام نے حالیہ برسوں کے دوران اڑن طشتریوں یا خلائی مخلوق کے طیاروں کے شواہد تو دریافت نہیں کرسکے مگر بظاہر ان کی موجودگی کو مسترد بھی نہیں کیا گیا۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق حکام کی جانب سے فضاؤں میں ہونے والی عجیب سرگرمیوں کی وضاحت نہیں کی جاسکی جس نے امریکی فوج اور سائنسدانوں کو الجھن میں ڈال رکھا ہے۔

یہ رپورٹ ایسے اعلیٰ عہدیداران کی جانب سے فراہم کی گئئی تفصیلات پر مبنی تھیں جن کو اس حوالے سے حکومتی تجزیے کے بارے میں بریفننگ دی گئی تھی۔

رپورٹ میں دریافت کیا گیا کہ فضاؤں میں 120 سے زیادہ بار جن اڑن طشتریوں یا یو ایف اوز کو دیکھا گیا ان میں سے بیشتر کا تعلق امریکی فوج یا کسی حکومتی ٹیکنالوجی سے نہیں تھا۔

اس دریافت سے بظاہر بحریہ کے پائلٹوں کا یہ امکان مسترد ہوتا ہے کہ یہ فضائی معمہ ممکنہ طور پر امریکی حکومت کی نئی ٹیکنالوجی منصوبوں کا حصہ ہے جس کو راز میں رکھا جارہا ہے۔

حکام کے مطابق حتمی رائے کو ٹھوس دریافت تک راز میں رکھا جائے گا جبکہ اس رپورٹ کا ایک ورژن 25 جون کو کانگریس میں پیش کیا جائے گا جس میں دیگر ٹھوس نتائج موجود ہوں گے۔

نیویارک ٹائمزز کے مطابق اعلیٰ عہدیداران کو انٹیی جنس کی بریفننگ میں جو کچھ بتایا گیا کہ اس سے ان خیالات کو مسترد نہیں یا جاسکتا کہ فوجی پائلٹوں کو جن تجربات کا سامنا ہوا وہ خلائی جہازوں کے نہیں۔

تجزیے میں تسلیم کیا گیا کہ رپورٹس کی متعدد تفصیلات کی وضاحت کرنا مشکل ہے، جیسے کیسے یہ اڑنے والی مشینیں تیزی سے حرکت کرتے ہوئے اپنی سمت بدلتی ہیں۔

ایک ممکنہ خیال یہ ہے کہ یہ ایسے طیارے ہوسکتے ہیں جو موسمیاتی غبارے یا اس سے ملتے جلتے ہوسکتے ہیں۔

حکام کا یہ بھی خیال ہے کہ کم از کم کچھ امریکی پائلٹوں نے جو دیکا ہے وہ کسی مخالف ریاست کی تجرباتی ٹیکنالوجی کا تجربہ بی ہوسکتا ہے۔

مگر وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں امریکی ٹیکنالوجی شامل نہیں بلکہ انہیں فکر ہے کہ روس یا چین کی جانب سے ہائپر سونک ٹیکنالوجی کے تجربات کیے جارہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں