مالی سال 2022 کیلئے ترقیاتی اخراجات میں 40 فیصد اضافے کی منظوری

اپ ڈیٹ 08 جون 2021
وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا — فائل فوٹو: اے پی
وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا — فائل فوٹو: اے پی

اسلام آباد: قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) نے آئندہ سال کی معاشی نمو کی شرح کو 21 کھرب 35 ارب روپے کے مجوزہ مجموعی ترقیاتی بجٹ کے ساتھ 4.8 فیصد مقرر کیا ہے جو گزشتہ سال کے نظر ثانی شدہ 15 کھرب 27 ارب روپے سے 40 فیصد زیادہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں تمام وزرائے اعلیٰ اور دیگر این ای سی اراکین شریک ہوئے۔

اجلاس میں مالی سال 22-2021 کے لیے میکرواکنامک فریم ورک کی منظوری دی گئی جس میں شرح نمو کا ہدف 4.8 فیصد مقرر کیا گیا اور شعبہ جاتی نمو کا ہدف زراعت میں 3.5 فیصد، صنعتی شعبے میں 6.5 فیصد جبکہ خدمات کے شعبے میں 4.8 فیصد ہوگا۔

وزارتِ منصوبہ بندی کی جانب سے رواں مالی سال کا پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے لیے ترقیاتی بجٹ نظرثانی تخمینوں کے مطابق 15 کھرب 27 ارب روپے رہے گا۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی حکومت میں ایک پی ٹی آئی اور دوسرا سندھ کا پاکستان ہے، مرتضیٰ وہاب

مالی سال 22-2021 کا مجموعی ترقیاتی بجٹ 21 کھرب 35 ارب روپے مقرر کرنے کی منظوری دی گئی۔

وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کا حجم مالی سال 22-2021 کے لیے 900 ارب روپے رکھنے کی منظوری دی گئی، جو رواں مالی سال 650 ارب روپے تھا اور یہ 38.5 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

دوسری جانب چاروں صوبوں کے مجموعی سالانہ ترقیاتی منصوبوں (اے ڈی پی) کا تخمینہ 12 کھرب 35 ارب رکھا گیا ہے، جو رواں سال کے 877 ارب روپے کے نظرثانی شدہ تخمینے سے تقریباً 41 فیصد زیادہ ہے۔

اجلاس کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ انہوں نے اور ان کے ساتھی نثار کھوڑو نے اجلاس کے دوران سندھ میں ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے غیر منصفانہ رویہ اختیار کرنے کے معاملے پر احتجاج کیا۔

سندھ ہاؤس کے باہر ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے اس شدید ناانصافی پر اپنا سخت احتجاج ریکارڈ کرایا، پی ایس ڈی پی میں چند اسکیموں کو شامل کرنے سے پہلے صوبوں سے مشاورت نہیں کی گئی، ہمیں خدشہ ہے کہ اس سے کرپشن ہوگی'۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ کی رضامندی کے بغیر اس ترقیاتی بجٹ کو پارلیمنٹ سے منظور نہیں کیا جاسکتا اور انہوں نے یہ وزیر اعظم کو بتادیا ہے تاکہ وہ اپنا احتجاج اور اختلاف رائے ریکارڈ کرا سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ میں 110 ارب روپے کا زرعی پیکج متوقع

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ایک یا دو دن میں این ای سی کی کارروائی کا باقاعدہ اختلاف رائے نامہ بھیجیں، جو وہ بھیج رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے اتفاق کیا کہ ترقیاتی پروگرام کو حتمی شکل دینے میں صوبوں کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی ہے اور اس کے باوجود انہوں نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ صوبے کو جو ترقیاتی فنڈز دیے جاتے تھے ان میں کافی کمی کردی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات نہیں تھے مگر سندھ کے لیے پی ایس ڈی پی میں انہوں نے اپنے گزشتہ دور میں 27 ارب روپے مختص کیے تھے جس کو کم کرکے 14 ارب روپے کردیا گیا تھا جس کے بعد سے 9 ارب روپے اور 8 ارب روپے دیے گئے اور مالی سال 22-2021 کے لیے اس میں مزید کمی کرتے ہوئے 5.1 ارب روپے کردیا گیا ہے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اس کے مقابلے میں دوسرے چھوٹے صوبوں کو 20 ارب اور پنجاب کو 44 ارب روپے دیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ دوسرے صوبوں کے لیے مختص رقم میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بہت تھوڑی رقم مختص کرنا غیر منصفانہ ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے الزام لگایا کہ صوبے کے باقی لوگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یونین کونسل ہاليپوٹو کے لیے فنڈز مختص کردیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ سندھ ان کا نہیں ہے اور اس بار انہوں نے اپنے عمل سے یہ بات ثابت کردی ہے، وزیر اعظم نے انہیں اجلاس میں آزادانہ طور پر بولنے تک نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو بڑا ریلیف ملے گا، فواد چوہدری

دوسری جانب وزیر اعظم کے دفتر کا کہنا تھا کہ پی ایس ڈی پی کے 900 ارب روپے میں سے 244 ارب ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن، 118 ارب روپے توانائی، 91 ارب روپے آبی وسائل، 113 ارب روپے سوشل سیکٹر، 100 ارب روپے علاقائی مساوات، 31 ارب روپے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سیکٹر، 68 ارب روپے ایس ڈی جیز جبکہ 17 ارب روپے پیداواری شعبے پر خرچ کیے جانے ہیں۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ پی ایس ڈی پی کا محور انفرا اسٹرکچر کی بہتری، آبی وسائل کی ڈیولپمنٹ، سوشل سیکٹر کی بہتری، علاقائی مساوات، اِسکل ڈیولپمنٹ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کا فروغ اور ماحولیات کے حوالے سے اقدامات ہوں گے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ پی ایس ڈی پی میں حکومتی پالیسی کے مطابق ان علاقوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے گا جو پیچھے رہ گئے ہیں۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ پبلک ۔ پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کے قیام کے بعد متعدد منصوبوں کی تکمیل کے لیے کام جاری ہے۔

ان منصوبوں میں سکھر ۔ حیدر آباد موٹروے، سیالکوٹ ۔ کھاریاں موٹروے کے منصوبے تکمیل کے قریب ہیں جبکہ دیگر منصوبے جن میں کراچی سرکلر ریلوے، کے پی ٹی پپری فریٹ کوریڈور، کھاریاں ۔ راولپنڈی موٹروے، بلکسر ۔ میانوالی روڈ، کوئٹہ ۔ کراچی ۔ چمن ہائی وے منصوبوں کا اجرا اسی سال کر دیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں