کیا ہم ملزمان کی غیر موجودگی میں اپیلوں کو میرٹ پر سن سکتے ہیں؟ جسٹس عامر فاروق

اپ ڈیٹ 09 جون 2021
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دے کہ جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ عدالت میرٹ پر فیصلہ کرے۔ 
---فائل فوٹو: اے ایف پی
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دے کہ جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ عدالت میرٹ پر فیصلہ کرے۔ ---فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، نائب صدر مریم نواز اور رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی دائر اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس عامر فاروق نے فریقین کے وکلا سے استفسار کیا ہے کہ کیا ہم ملزمان کی غیر موجودگی میں اپیلوں کو میرٹ پر سن سکتے ہیں؟

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد کے ڈویژن بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی نائب صدر مسلم للیگ(ن) مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کی دائر اپیلوں پر سماعت کی۔

عدالت نے نواز شریف کی عدم موجودگی میں ان کی اپیل سننے یا نہ سننے کے بارے میں وکلا اور عدالتی معاون اعظم نذیرتارڈ کے دلائل سنے، عدالت نے گزشتہ سماعت میں اس حوالے سے وکلا سے دلائل طلب کر لیے تھے۔

مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر اپنے وکیل امجد پرویز کے ساتھ عدالت کے روبرو پیش ہوئے جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ عدالت میں پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کی سزائیں معطل

سماعت کے دوران لیگی قیادت اور کارکنان کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی۔

عدالتی معاون اعظم نذیر تارڑ نے نواز شریف کی اپیل پر سماعت سے متعلق دلائل شروع کیے کہ ہمارے پاس ہر قانون کے لیے فاونڈیشن ہونا چاہیے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دے کہ جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ عدالت میرٹ پر فیصلہ کرے اور استفسار کیا کہ اس چیز کی تصدیق کرنا ضروری ہے کہ کیا ہم میرٹ پر اس کیس کو سن سکتے ہیں؟

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قانون میں واضح ہے کہ اگر ملزم نہیں ہو تو میرٹ پر کیس نہیں سنا جا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے ایک آنکھ سے نواز شریف، اعظم نذیر اور امجد پرویز کو دیکھنا ہے اور اگر عدالت کے پاس دستاویزات موجود ہیں تو عدالت کو ایک آنکھ سے دیکھنا ہوگا۔

اعظم نذیر تارڑ نے نواز شریف کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ بھی دیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو فیصلے کو عرصہ گزرا مگر آج بھی ان کے نتائج پر باتیں ہورہی ہیں کیونکہ آئین اور قانون کی رو سے ایسا فیصلہ دیا جاسکتا ہے کہ ایک واضح ونڈو اوپن ہو۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کئی کیسز میں واضح فیصلے دیے ہیں، جس پر جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر کے حوالے سے ریمارکس دیے کہ انہوں نے میرٹ پر اپیل مسترد کرنے کی استدعا کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی درخواست منظور

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر بات کروں گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس اگر ان کے علاوہ کسی اور کا ہوتا تو آج تک یاد نہ رکھا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی کیسز نہ صرف قانون کی کتابوں میں بلکہ سیاسی تاریخ میں بھی کندہ ہوتے ہیں اور ایسی مثالیں موجود ہیں کہ غیرموجودگی میں ہائی کورٹ نے اپیلیں سن لیں پھر سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیدیا۔

جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ ملزم کی غیرموجودگی میں ٹرائل بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نواز شریف کی غیر موجودگی میں عدالت اپیل کو خارج کرسکتی ہے کیونکہ دونوں فریقین کی جانب سے عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو کرنے کا کہا تھا جس میں اپیل کے دو مقاصد ہیں ایک یہ کہ سزا ختم ہو اور دوسرا یہ کہ سزا برقرار رہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس کیس کو اگر اسی موقع پر روک دے تو ٹرائل کورٹ کا فیصلہ ادھر ہی رہے گا اور مجھے بھی احساس ہے کہ یہاں بہت سارے دیگر کیسز لگے ہیں مگر یہ بھی قومی سطح کا کیس ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ٹرائل ان کی موجودگی میں ہوا ہے تو اپیل بھی ان کی موجودگی میں سنی جائے اگر اپیل کا ابھی فیصلہ کرتے ہیں اور کل کو فیصلہ واپس ہوجائے تو پھر کیا ہوگا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر اب عدالت اس اپیل کو خارج کرتی ہے یا کس کو نہیں سنتی تو نہ کسی کا فائدہ ہوگا اور نہ نقصان، عدالت قانون کو دیکھ کر فیصلہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایسے بہت سارے کیسز میں ریلیف دیا گیا ہے ، ہم نے لوگوں کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنا ہے۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کی اپیلیں خارج کرنے کیلئے نیب کی استدعا مسترد

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہماری عدالتیں بعض کیسز میں سورہی ہیں جبکہ عام آدمی کو انصاف دینے، ان کو حق دلانے کے لیے عدالتیں بنائی گئی ہیں۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ’لیکن یہاں تو دو اور اپیلیں بھی زیر سماعت ہیں، اس کا کیا کرنا ہے؟

جسٹس عامر فاروق نے اعظم نذیر تارڑ سے پھر استفسار کیا کہ ان کیسز کو ہم میرٹ پر سن سکتے ہیں؟

اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ آپ ان کیسز میں فیصلہ کرسکتے ہیں مگر ملزم کے لیے سہولت کا رستہ ضرور ہو۔

انہوں نے کہا کہ تینوں ملزمان نے 342 کا بیان قلمبند کرا رکھا ہے، تینوں ملزمان کے وکلا نے اپنے دلائل دیے ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ اکرام اللہ کیس میں سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ جو حاضر ہوگا تو ہی فیصلہ کیا جائے گا۔

اس دوران عدالت نے اعظم نذیر تارڑ کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کا حوالہ دینے سے روک دیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ موجودہ نوعیت کے معاملات میں محفوظ راستہ ہی عدالتیں اختیار کرتی رہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے ریماکس دیے کہ نواز شریف کے 2 شریک ملزمان بھی اس عدالت میں موجود ہیں کیونکہ مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کو بھی انہی شواہد پر سزا ملی۔

جسسٹس عامر فاروق نے ریماکس دیے کہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر تو میرٹ پر اپنا کیس چلائیں گے ہی لیکن انہی شواہد اور میرٹ پر ان دونوں کی اپیلوں پر فیصلہ ہو جائے تو پھر کیا ہوگا؟

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نواز شریف واپس آکر اپنا کیس پھر بھی الگ چلا سکتے ہیں جبکہ عدالت خود چاہے تو کیپٹن (ر) صفدر اور مریم کی اپیلیں بھی فی الحال مؤخر کر دے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ایک ملزم کے موجود نہ ہونے پر دوسروں کا معاملہ تو التوا میں نہیں رکھا جا سکتا۔

دوران سماعت جہانزیب بھروانہ نے کہا نوازشریف کا حق سماعت پہلے ہی ختم کیا جا چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے ہر پہلو کا جائزہ لے کر ہی ایسا کیا تھا اس لیے اب اس اسٹیج پر نواز شریف کی اپیل خارج ہی کی جائے۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ میرٹ پر آپ کو سن کر کریں یا ایسے ہی آپ کہہ کیا رہے ہیں؟

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شواہد میں بھی جائے بغیر اشتہاری ہونے پر اپیل خارج ہو سکتی ہے میں عدالت کے سامنے عدالتی حوالے بھی پیش کر دوں گا۔

نیب کی جانب سے مختلف عدالتی فیصلوں کی کاپیاں عدالت کو فراہم کی گئیں۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے استدعا کی کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا برقرار رکھی جائے۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کی سزا بڑھائی جائے جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بریت کے خلاف اپیل میں ابھی تک نوٹس نہیں ہوئے ہیں۔

جس کے بعد اعظم نذیر تارڑ نے مزید عدالتی معاونت کے لیے مہلت طلب کر لی جس کو عدالت نے منظور کرلیا۔

بعدازاں عدالت نے نواز شریف، مریم نواز کی اپیلوں پر سماعت 23 جون تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت 25 مئی کو ہوئی تھی، جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزاؤں کے خلاف دائر اپیلیں خارج کرنے کی استدعا مسترد کردی تھی اور وکلا سے دلائل طلب کرلیے تھے کہ کیا نواز شریف کی اپیل سنی جاسکتی ہے یا نہیں۔

ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ

خیال رہے کہ 6 جولائی 2018 کو شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں سزا کےخلاف نواز شریف کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

بعد ازاں نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں 19 ستمبر 2018 کو ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

جس کے بعد 22 اکتوبر 2018 کو نیب نے نواز شریف کی رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائر صفدر کی سزا معطلی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل خارج کردی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں