جوبائیڈن نے ٹک ٹاک، وی چیٹ کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے حکم نامے واپس لے لیے

اپ ڈیٹ 09 جون 2021
ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں 2 حکم نامے جاری کیے تھے—فائل فوٹو: رائٹرز
ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں 2 حکم نامے جاری کیے تھے—فائل فوٹو: رائٹرز

امریکی صدر جو بائیڈن نے مقبول ایپس ٹک ٹاک اور وی چیٹ پر پابندی کی کوشش پر مبنی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو واپس لے لیا۔

وائٹ ہاؤس کے جاری بیان میں کہا گیا کہ وہ چین سے منسلک سافٹ ویئر ایپلی کیشنز کا جائزہ لیں گے اور قومی سلامتی کے خدشات کی نشاندہی کریں گے۔

امریکی خبررساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق ایک نئے ایگزیکٹو آرڈر میں امریکا کے محکمہ تجارت کو ہدایت دی گئی ہے کہ چین کی جانب سے تیار کی جانے والی یا سپلائی یا کنٹرول کی جانے والی ایپس میں ملوث لین کا 'ثبوت پر مبنی' تجزیہ کریں۔

مزید پڑھیں: امریکا کا ’وی چیٹ‘ اور ’ٹک ٹاک‘ بند کرنے کا اعلان

حکام کو خاص طور پر ایسی ایپس کے بارے میں تشویش لاحق ہے جو صارفین کا ذاتی ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں یا چینی فوجی یا انٹیلی جنس سرگرمیوں سے منسلک ہیں۔

سیئنر انتظامی عہدیداران کے مطابق امریکی محکمہ تجارت امریکیوں کی جینیاتی اور ذاتی صحت سے متعلق معلومات کی مزید حفاظت سے متعلق سفارشات پیش کرے گا اور چین یا دیگر مخالفین سے منسلک کچھ سافٹ ویئر ایپس کے خطرات کو حل کرے گا۔

جوبائیڈن انتظامیہ کا یہ اقدام اس تشویش کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکی شہریوں کے ذاتی ڈیٹا کو چین سے منسلک مقبول ایپس کے ذریعے بے نقاب کیا جاسکتا ہے، جو امریکا کا ایک اہم اقتصادی اور سیاسی حریف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی جج کا ٹک ٹاک پر پابندی کے حکم پر اطلاق روکنے کا عندیہ

وائٹ ہاؤس اور کانگریس دونوں نے بیجنگ کی تکنیکی ترقی کے حل کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔

گزشتہ روز سینیٹ نے ایک بل منظور کیا تھا جس کا مقصد بڑھتے ہوئے بین الاقوامی مقابلے کا سامنا کرنے کے لیے امریکی سیمی کنڈکٹر کی تیاری، مصنوعی ذہانت اور دیگر ٹیکنالوجی کی ترقی کو فروغ دینا ہے۔

رواں برس کے آغاز میں امریکی انتظامیہ نے مقبول ویڈیو ایپ ٹک ٹاک پر پابندی سے متعلق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کی حمایت کی تھی اور عدالت سے قانونی تنازع ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ امریکی حکومت نے چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں سے درپیش قومی سلامتی کے خطرات کا وسیع جائزہ لینا شروع کردیا تھا۔

امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں 2 مختلف ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے وی چیٹ اور ٹک ٹاک کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

مزید پڑھیں: وی چیٹ اور ٹک ٹاک عارضی طور پر امریکی پابندی کو ٹالنے میں کامیاب

ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات میں ٹک ٹاک کو تجویز دی گئی تھی کہ وہ اپنے امریکی شیئرز 45 دن میں کسی امریکی کمپنی کو فروخت کردے، دوسری صورت میں اسے بند کردیا جائے گا۔

اسی طرح وی چیٹ کو بھی بتایا گیا تھا کہ وہ بھی اپنے امریکی اثاثے کسی امریکی ٹیکنالوجی کمپنی کو 45 دن میں فروخت کردے، دوسری صورت میں اسے بھی بند کردیا جائے گا۔

امریکی صدر کی دھمکی کے بعد متعدد امریکی کمپنیوں نے ٹک ٹاک اور وی چیٹ کے امریکی اثاثے خریدنے کی دلچسپی بھی ظاہر کی تھی اور بعد ازاں ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی کمپنیوں کو مزید 45 دن کی مہلت دی تھی۔

بعدازاں ٹک ٹاک کے حوالے سے خبر سامنے آئی تھی کہ شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن امریکی کمپنی اوریکل کے ساتھ پارٹنر شپ بنیادوں پر امریکا میں کام کرنے کے لیے رضامند ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک اور وی چیٹ پر امریکی پابندیاں : چین کا ردعمل سامنے آگیا

تاہم امریکی حکومت نے وی چیٹ کو 20 ستمبر سے جبکہ ٹک ٹاک کو 12 نومبر سے بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

امریکی حکام نے کہا تھا کہ ٹک ٹاک کو 12 نومبر تک انٹرنیٹ کے حفاظتی انتظامات کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے، تاہم مقررہ مدت کے بعد اس پر پابندی لگائی جائے گی۔

جس کے بعد ٹک ٹاک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 19 ستمبر کو جاری کردہ پابندی کے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا، ان کے مطابق اگر یہ فیصلہ عارضی ہو تب بھی اس سے ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

بعدازاں ٹک ٹاک کی درخواست پر عدالت نے وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایپ کو بند کرنے کی کوششوں کو عارضی طور پر روک دیا تھا اور صدارتی الیکشن کی دوڑ کے باعث یہ معاملہ پسِ منظر میں چلا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں