موسم کے مطابق نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کم یا زیادہ ہوسکتی ہے مگر درجہ حرارت بڑھنا اس کی روک تھام کے لیے کافی نہیں۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

امپرئیل کالج لندن کی اس تحقیق میں پہلی بار ماحولیاتی ڈیٹا کو وبائی ماڈلز سے باہم ملا کر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ درجہ حرارت اور آبادی کی تعداد اہم ترین عناصر ہیں جو تعین کرتے ہیں کہ وائرس کتنی آسانی سے پھیل سکتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے ابت ہوتا ہے کہ درجہ حرارت میں تبدیلی سے وائرس کے پھیلاؤ میں بہت معمولی اثرات مرتب ہوتے ہیں تو ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد کے لیے سماجی دوری کی پالیسیوں کو موسم گرم ہونے پر بھی برقرار رکھا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نتائج سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ خزاں اور سرما میں درجہ حرارت میں کمی سے وائرس کا پھیلاؤ احتیاطی تدابیر کے بغیر بہت آسانی سے پھیل سکتا ہے۔

فلو اور دیگر کورونا وائرسز پر ماحولیاتی عناصر جیسے زیادہ درجہ حرارت اور کم نمی والا ماحول اثرانداز ہوکر ان کے پھیلاؤ کی شرح کو کم کردیتا ہے۔

مگر نئے کورونا وائرس کے بارے میں اس حوالے سے پیشگوئی کرنا ممکن نہیں کیونکہ موسم کے ساتھ ساتھ انسانی عناصر جیسے گنجان آبادی اور لوگوں کے رویے بھی وائرس کے پھیلاؤ کو بڑھا سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایران اور برازیل میں موسم بہت گرم ہوتا ہے مگر وہاں وائرس کے پھیلاؤ کی شرح بہت زیادہ تھی۔

اس حوالے سے جانچ پڑتال کے لیے تحقیقی ٹیم نے امریکا بھر میں وائرس کے پھیلاؤ کا موازنہ کیا گیا۔

امریکا کے مختلف علاقوں میں موسم ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جبکہ وہاں کی پالیسیوں اور کیسز کی تعداد کا موازنہ بھی کیا گیا۔

محققین نے ایسے ٹھوس شواہد دریافت کیے کہ کم درجہ حرارت اور زیادہ آبادی دونوں کورونا وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔

اگرچہ درجہ حرارت کا اثر زیادہ نہیں تھا مگر تحقیقی ٹیم کے ماڈلل کے مطابق درجہ حرارت میں فی سینٹی گریڈ اضافے سے وائرس کے پھیلاؤ کا آر نمبر لگ بھگ 0.04 فیصد گھٹ جاتا ہے۔

تاہم موسم کا اثر اس وقت بیکار ہوجاتا ہے جب کسی قسم کی احتیاطی تدابیر کو اختیار نہ کیا جائے۔

اب محققین کی جانب سے تحقیق کا دائرہ کورونا کی نئی اقسام تک پھیلایا جارہا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ اس سے مستقبل میں بیماری کے پھیلاؤ کی پیشگوئی میں مدد مل سکے گی۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں