وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کی عبوری ضمانت مکمل ہونے پر عدالت کو آگاہ کیا کہ کسی دونوں کی گرفتاری اس وقت درکار نہیں ہے۔

جہانگیر ترین اور علی ترین شوگر اسکینڈل تحقیقات کی روشنی میں قائم مختلف مقدمات کے حوالے سے عبوری ضمانت مکمل ہونے پر سیشن کورٹ میں پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: شہزاد اکبر پر الزام: نذیر چوہان کے خلاف مقدمے سے بات بگڑی ہے، جہانگیر ترین

ایف آئی اے نے عدالت میں بیان دیا کہ اس وقت جہانگیر ترین اور علی ترین کی گرفتاری درکار نہیں اور ایف آئی اے بنیادی انسانی حقوق پر یقین رکھتا ہے، ابھی ہم ریکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں۔

اس موقع پر جہانگیر ترین کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ہم درخواست ضمانت واپس لے رہے ہیں۔

جج نے ایف آئی اے کے افسر سے کہا کہ آپ کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیتے ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ جی میں بیان دینے کو تیار ہوں، جس پر عدالت نے ملزمان کو گرفتار نہ کرنے سے متعلق ایف آئی اے کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔

عدالت نے جہانگیر ترین سے استفسار کیا کہ 1991 سے سی ای او رہے ہیں اس سے پہلے کتنے مقدمات درج ہوئے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ کوئی ایک مقدمہ بھی نہیں ہے۔

جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا مقدمہ بنایا گیا ہے، ایف آئی اے کے مطابق جہانگیر ترین نے حصص میں خوردبرد کی لیکن آج تک کوئی شئیرز ہولڈر سامنے نہیں آیا، بینکنگ چینل سے پیسے کا لین دین ہوا۔

عدالت کے سامنے جہانگیر ترین اور علی ترین نے دو مقامات میں ضمانتیں واپس لے لیں جبکہ عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے کارروائی سے پہلے عدالت کو آگاہ کرے۔

جہانگیر ترین کی بیکنگ کورٹ میں پیشی

جہانگیر ترین اور علی ترین بینکنگ مالیاتی اسیکنڈل کے حوالے سے قائم تیسرے مقدمے میں بھی بینکنگ کورٹ میں پیش ہوئے جہاں جج کے تبادلے کی وجہ سے ایڈیشنل سیشن جج نے سماعت کی۔

بینکنگ کورٹ میں قائم یہ مقدمہ مبینہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹ میں پیسے جمع کرانے سے متعلق ہے۔

مزید پڑھیں: ’جہانگیر ترین گروپ کے مطالبے‘ پر لودھراں کے ڈی پی او کا تبادلہ

جہانگیر ترین کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے دو مقدمات میں درخواست ضمانت واپس لے لی ہے، جہانگیر ترین 10ماہ سے تفتیش کا حصہ ہیں اور وہ دیگر لوگوں کے ہمراہ لگ بھگ 100 مرتبہ پیش ہو چکے ہیں۔

وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے کو تمام ریکارڈ جمع کرا چکے ہیں، یہ سیاسی مقدمات بنائے جاتے ہیں، امانت میں خیانت کا الزام ہے لیکن کس کی خیانت ہوئی آج تک کوئی شخص سامنے نہیں آیا، شیئر ہولڈرز بھی مطمئن ہیں اور کام کر رہے ہیں، یہ مقدمہ بنایا ہی غلط گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمپنیز کے معاملات کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) دیکھتا ہے لیکن وہاں سے آج تک نوٹس نہیں ملا، عدالت اس کیس کو کھولے گی تو یہ ایف آئی اے سے ناراض ہی ہوگی۔

اس موقع پر جج نے کہا کہ بطور جج اس معاملے پر کمنٹ نہیں کرنا چاہتا، ہمیں قانون اور آئین کے مطابق چلنا ہے۔

سماعت کے دوران ایف آئی اے نے بیان دیا کہ جہانگیر ترین اور علی ترین کی تیسرے مقدمے میں بھی گرفتاری درکار نہیں ہے۔

ایف آئی اے نے بیان میں کہا کہ قانونی کارروائی سے پہلے درخواست گزار کو مطلع کیا جائے گا، جس کے بعد جہانگیر ترین اور علی ترین نے بھی تیسرے مقدمے میں درخواست ضمانت واپس لے لی جبکہ عدالت نے درخواست ضمانت واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔

اس موقع پر عدالت کا جہانگیر ترین سے مکالمہ بھی ہوا ہے، جب عدالت نے کہا کہ آپ بیٹھ کر دستخط کردیں، جس پر جہانگیر ترین نے کہا کہ عدالت کے سامنے دستخط کرنے سے زیادہ خوشی ہوگی، اس طرح جہانگیر ترین اور علی ترین نے ضمانت واپس لینے کے بیان پر دستخط کردیے۔

مشکل وقت گزر گیا، جہانگیر ترین

عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا کہ مشکل وقت تھا گزر گیا، جس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں، آج خوشی ہے 10 مہینے کی تفتیس میں 100 چکر لگے ہیں، قانون کا سامنا کیا اور کرتے رہیں گے۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ مقدمے کا بجٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اب تینوں ایف آئی آرز میں گرفتاری نہیں ہوگی، کیس میں گرفتاری کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے پاس تمام کاغذات موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کیس میں کوئی مدعی نہیں ہے، منی لانڈرنگ کیس میں بھی کوئی ثبوت نہیں، اس حوالے سے تفتیش مکمل ہے اور تمام کاغذات بھی جمع کروا چکے ہیں، ایف آئی اے نے ایسے مقدمات کی کبھی تفتیش نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: جہانگیر ترین سمیت کسی کو ٹارگٹ نہیں کیا جارہا، نہ تحفظ دیا جارہا ہے، شہزاد اکبر

قبل ازیں 31 مئی کو جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کی درخواست ضمانت پر سیشن کورٹ میں سماعت ہوئی تھی جہاں جج حامد حسین نے ایف آئی اے سے استفسار کیا تھا کہ پچھلے 15 روز میں وفاقی ادارے نے کیا تحقیقات کی ہیں، جس پر ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا تھا کہ ادارے کے ایک افسر کا تبادلہ ہوگیا ہے۔

جج نے کہا کہ یہ معاملہ کب سے چل رہا ہے، ابھی تک کیوں تحقیقات مکمل نہیں کی گئیں، اگر آپ کا ادارہ تفتیش نہیں کرنا چاہتا تو بتائے، ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے کہا تھا کہ ہم اس کیس پر حتمی دلائل کے لیے تیار ہیں۔

جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا تھا کہ اس مرحلے پر ایف آئی اے کے نئے تفتیشی افسر آرہے ہیں وہ کیسے جلد تحقیقات مکمل کریں گے۔

سیشن عدالت نے تفتیش مکمل نہ کرنے پر ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جہانگیر ترین اور علی ترین کی عبوری ضمانت میں 11 جون تک توسیع کر دی تھی۔

دوسری جانب بینکنگ کورٹ نے بھی جہانگیر ترین اور علی ترین کی درخواست ضمانت پر سماعت جج کی عدم دستیابی پر 11 جون تک ملتوی کردی تھی۔

پس منظر

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف مالیاتی فراڈ اور منی لانڈرنگ کا مقدمات درج کیے تھے۔

دستاویزات کے مطابق پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 406، 420 اور 109 جبکہ انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3/4 کے تحت 2 علیحدہ مقدمات درج کیے گئے۔

ایف آئی آر کے مطابق انکوائری کے دوران جہانگیر ترین کی جانب سے سرکاری شیئر ہولڈرز کے پیسے کے غبن کی سوچی سمجھی اور دھوکہ دہی پر مبنی اسکیم سامنے آئی جس میں جہانگیر ترین کی کمپنی جے ڈی ڈبلیو نے دھوکے سے 3 ارب 14 کروڑ روپے فاروقی پلپ ملز لمیٹڈ (ایف پی ایم ایل) کو منتقل کیے جو ان کے بیٹے اور قریبی عزیزوں کی ملکیت ہے-

جس کے بعد جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین نے لاہور کی سیشن کورٹ سے عبوری ضمانت حاصل کرلی تھی۔

جہانگیر ترین اور علی ترین نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ایف آئی اے نے جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ درج کیا جبکہ کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا لیکن ایف آئی اے نے بے بنیاد مقدمے میں نامزد کر دیا۔

عدالت نے درخواست قبول کرتے ہوئے دونوں کی عبوری ضمانت منظور کرلی تھی اور ایف آئی اے سے 10 اپریل تک مقدمے کا مکمل ریکارڈ طلب کیا تھا۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے 21 فروری 2020 کو ملک بھر میں چینی کی قیمت میں یکدم اضافے اور اس کے بحران کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔

کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: جہانگیر ترین سمیت کسی کو ٹارگٹ نہیں کیا جارہا، نہ تحفظ دیا جارہا ہے، شہزاد اکبر

انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

جس کے بعد 21 مئی کو حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ منظرعام پر لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، 2 کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔

وزیر اعظم عمران خان نے 7 جون کو شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

جہانگیر ترین جون میں ہی خاموشی کے ساتھ انگلینڈ روانہ ہو گئے تھے، وہ انکوائری کمیشن کی جانب سے چینی بحران کی فرانزک آڈٹ رپورٹ جاری کرنے سے قبل ہی ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

بعد ازاں کئی ماہ انگلینڈ میں قیام کے بعد نومبر میں وطن واپس آئے تھے اور واپسی پر لاہور میں علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے بتایا تھا کہ وہ علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے اور میں اس مقصد سے گزشتہ 7 سال سے بیرون ملک جا رہا ہوں، علاج مکمل ہونے کے بعد اب وطن واپس آ گیا ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں