امریکی و روسی صدور کی جنیوا میں ملاقات، سفرا کی واپسی پر اتفاق

اپ ڈیٹ 17 جون 2021
دونوں صدور نے ایٹمی ہتھیاروں کو محدود کرنے کے بارے میں معاہدے کے لیے بات چیت شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ - فائل فوٹو:اے پی
دونوں صدور نے ایٹمی ہتھیاروں کو محدود کرنے کے بارے میں معاہدے کے لیے بات چیت شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ - فائل فوٹو:اے پی

جینیوا: روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ انہوں نے اور امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک تعمیری سربراہی اجلاس میں اتفاق کیا ہے کہ وہ اپنے ممالک کے سفیروں کو ان کے عہدوں پر واپس بھیجیں گے اور ایٹمی ہتھیاروں کو محدود کرنے کے بارے میں دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے لیے بات چیت شروع کریں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق توقع سے پہلے ختم ہونے والی گفتگو کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بات چیت کے دوران کسی قسم کی دشمنی کا اظہار نہیں کیا گیا۔

دونوں فریقین نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ وہ 4 سے 5 گھنٹوں تک ملاقات کریں گے تاہم انہوں نے 3 گھنٹے سے بھی کم وقت ساتھ گزارے جس میں دونوں صدور اور دونوں کے معاون شامل تھے۔

جب ملاقات ختم ہوگئی تو ولادمیر پیوٹن نے اکیلے نیوز کانفرنس کی اور اس ملاقات کے بارے میں بتایا جبکہ جو بائیڈن نے بعد ازاں صحافیوں کو بریفنگ دی۔

مزید پڑھیں: پیوٹن کے خلاف بائیڈن کا بیان، روس نے امریکا سے اپنا سفیر بلا لیا

ولادمیر پیوٹن نے بتایا کہ جو بائیڈن نے ان سے انسانی حقوق کے معاملات اٹھائے تھے جس میں اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی کے مستقبل کے بارے میں بھی باتیں شامل تھیں۔

انہوں نے امریکا میں بلیک لائیوز میٹر احتجاج اور 6 جنوری کے کیپیٹل ہل پر حملے کے واقعات جیسے مقامی بحران کو اجاگر کرتے ہوئے الیکسی ناوالنی کی قید کی سزا کا دفاع کیا روسی اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ بدسلوکی کے بارے میں بار بار سوالات کو نظرانداز کیا۔

وہ بین الاقوامی رپورٹرز کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹہ گزارا۔

جو بائیڈن کے انسانی حقوق کے امور پر دباؤ ڈالنے کے بارے میں سوالات پر انہوں نے امریکی صدر کے لیے ایک تجربہ کار سیاسی رہنما کی حیثیت سے ایک قابل قدر احترام کا اظہار بھی کیا۔

روسی صدر نے نشاندہی کی کہ جو بائیڈن نے ان کی والدہ کی جانب سے انہیں دیے گئے دانشمندانہ مشورے کو دوہرایا اور ان کے خاندان کے بارے میں بھی بات کی اور کہا کہ 'شاید اس کا سربراہی اجلاس سے پوری طرح سے کوئی تعلق نہیں ہوگا تاہم اس سے جو بائیڈن کے اخلاقی اقدار کا مظاہرہ ہوا'۔

جہاں انہوں نے امریکا اور روس کے تعلقات جلد ہی گزشتہ برسوں کی طرح بحال ہونے پر شبہ ظاہر کیا وہیں انہوں نے کہا کہ جو بائیڈن وہ ہیں جس کے ساتھ وہ کام کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روس کےخلاف امریکی پابندیوں میں پاکستانی افراد، کمپنیاں بھی شامل

ولادمیر پیوٹن نے کہا کہ یہ ملاقات دراصل بہت موثر رہی، اس کا مقصد نتائج کو حاصل کرنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اور جو بائیڈن نے جوہری ہتھیاروں کو محدود کرنے کے لیے نئے 'اسٹارٹ' معاہدے کی ممکنہ طور پر 2026 میں میعاد ختم ہونے کے بعد اس کی جگہ لینے کے لیے جوہری مذاکرات پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

واشنگٹن نے 2014 میں ماسکو سے بات چیت بند کردی تھی جو 2017 میں دوبارہ شروع ہوئی تھی تاہم اس میں زیادہ کچھ حاصل نہ ہوسکا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران نئے 'اسٹارٹ' معاہدے میں توسیع پر معاہدہ پیش کرنے میں ناکام رہی تھی۔

ولادمیر پیوٹن نے یہ بھی کہا کہ دونوں فریقین نے سائبر سیکیورٹی کے معاملات پر مشاورت شروع کرنے پر بھی اصولی طور پر اتفاق کیا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے روس پر نئی پابندیاں عائد کردیں، 10 سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم

کتابوں سے بھرے کمرے میں ہونے والی اس ملاقات کا آغاز کچھ عجیب و غریب تھا جہاں دونوں صدور تصویر کھنچواتے وقت ایک دوسرے کو براہ راست دیکھنے سے گریز کرتے نظر آئے تھے۔

جب ایک صحفی نے سوال کیا کہ ولادمیر پیوٹن پر اعتماد کیا جاسکتا ہے تو جو بائیڈن نے اس وقت سر ہلا دیا تاہم وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر ایک ٹوئٹ کیا جس میں کہا گیا کہ صدر کسی بھی سوال کا جواب نہیں دے رہے بلکہ پریس کے سامنے اس کے اعتراف میں سر ہلا رہے ہیں۔

مختصر سے اس لمحے میں ان کی باڈی لینگویج میں غیر معمولی طور پر گرم جوشی نظر نہیں آئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں