عوام کی جیب خالی ہے تو بجٹ جعلی ہے، منظور نہیں ہونے دیں گے، شہباز شریف

اپ ڈیٹ 17 جون 2021
انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ سے مزید لوگ خط غربت سے نیچے آجائیں گے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ سے مزید لوگ خط غربت سے نیچے آجائیں گے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ حالیہ بجٹ غریب عوام کے ساتھ مذاق ہے جسے منظور نہیں ہونے دیں گے اور اس کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے۔

قومی اسمبلی میں پوسٹ بجٹ تقریر میں شہباز شریف نے کہا کہ اگر غریب عوام کی جیب خالی ہے تو یہ بجٹ جعلی ہے۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی تقریر کے دوران شدید ہنگامہ آرائی، شور شرابا

انہوں نے کہا کہ یہ میں نے اس لیے کہا کہ گزشتہ 3 برس میں ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی اس کے نتیجے میں غریب کی ایک روٹی آدھی ہوچکی ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہم ایوان کے ایئر کنڈیشن ماحول میں بیٹھ کر پاکستان کے طول و عرض میں عوام کے ساتھ ہونے والے مظالم کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ تین برس کے دوران ناقص پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں بھوک، بدحالی اور مایوسی نے جگہ بنالی ہے۔

'حالیہ دنوں میں ہونے والی قانون سازی آئین سے متصادم ہے'

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں ہونے والی قانون سازی آئین اور قانون سے متصادم ہے، ان میں کئی قانونی سقم ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے آواز اٹھائی لیکن توجہ نہیں دی گئی اور پھر سینیٹ میں جا کر اپوزیشن نے اپنا کردار ادا کیا۔

انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو مخاطب کرکے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ کمیٹی بننی چاہیے۔

جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اس ضمن میں بات ہوچکی ہے، اس کی تحقیقاتی کمیٹی بنے گی جس میں دونوں بینچز کی جانب سے اراکین شامل ہوں گے اور قانون سازی کے عمل کا جائزہ لیں گے۔

خیال رہے کہ جب شہباز شریف نے مائیک سنبھالا اور گزشتہ 3 روز کے دوران ہونے والی ایوان زیریں میں ہنگامہ آرائی کا تذکرہ کیا تو حکومتی اراکین کی جانب سے ایک مرتبہ شور شرابا شروع ہوگیا جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے فوراً ہی قابو پالیا۔

شہباز شریف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایوان میں دونوں جانب جو لوگ موجود ہیں، انہیں عوام نے منتخب کرکے بھیجا ہے اور حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات پر دکھ ہے۔

'بجٹ سے مزید بدحالی آئے گی'

انہوں نے کہا کہ ایوان کا یومیہ خرچ کروڑوں روپے ہے اور ہم یہاں عوام کے معاشی، اقتصادی اور معاشرتی مسائل حل کرنے کےلیے جمع ہوتے ہیں اس لیے ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہم یہاں کسان، مزدور، طالبعلم اور بے روزگار کی بات کرنے آئے ہیں۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کی تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی، قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی

علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نے حکومت چھوڑی جی ڈی پی کی شرح 5.8 فیصد تھی اور موجودہ حکومت کے دور میں کووڈ 19 سے پہلے ہی جی ڈی پی کی شرح منفی میں آگئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ سے مزید بدحالی آئے گی اور 2 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے آگئے۔

'اس سے بہتر تو پرانا پاکستان تھا'

شہباز شریف نے کہا کہ اس جعلی بجٹ کی وجہ سے 50 لاکھ افراد بے روزگاری کی دلدل میں پھنس چکے ہیں اور لوگ بجٹ کو دیکھ کر پوچھ رہے ہیں کہ کہاں ہیں ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بلند ترین 15 فیصد تک پہنچ چکی ہے، 3 سال گزر گئے اور اس دوران مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے منصوبوں کے فیتے کاٹتے ہیں اور تختیاں لگواتے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ اس سے بہتر تو پرانا پاکستان تھا۔

انہوں نے کہا کہ صوبے اکائیاں ہیں اور صوبوں کے مابین اتحاد ہی ملکی ترقی کا باعث بن سکتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث اعتماد کا فقدان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ احتساب کے نام پر متعدد سیاستدان سلاخوں کے لیے پیچھے سے آئیں، دراصل یہ سیاسی انتقام ہے۔

علاوہ ازیں انہوں نے کووڈ 19 کے معاملے پر حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے 12 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا جو نااہلی کی نذر ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ چین نے ویکسین فراہم کیں تو کیا ہمیں صرف تحائف پر اکتفا کرنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی لہر میں شدت تھی تب بھی وزیر اعظم عمران خان اور نیب کے گٹھ جوڑ کے باعث سیاستدانوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی پر قرض پونے دو لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کا آخری بال بھی مقروض ہوچکا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک ہاتھ میں ایمٹی طاقت ہو اور دوسرے ہاتھ میں کشکول ہو، یہ برقرار نہیں رہ سکتا، ہمیں ایٹمی صلاحیت بن کر رہنا ہے، اس کے لیے وہ حالات اور وسائل پیدا کرنے ہوں گے۔

'ہاتھ پھیلانے والا فیصلہ کر نہیں سکتا'

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ہاتھ پھیلانے والا فیصلہ تو کر نہیں سکتا، وہ تو ہمیشہ ڈکٹیشن لے گا، اگر ڈکٹیشن ختم کرنی ہے اور اپنے آپ کو پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو پھر وہ کشکول توڑنا ہوگا، جو راتوں رات نہیں ہوسکتا لیکن اس کے لیے شروعات تو کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پر الزام تھا کہ انہوں نے برآمدات کو نہیں بڑھایا تو انہوں نے کیا کیا، 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت مکمل ہونے پر برآمدات کی جو سطح تھی، اس کے بعد آج تک روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 35 فیصد گرچکی ہے، جب روپے کی قدر گری تو درآمدات کی قیمت اسی حساب سے مہنگی ہوگئی، جس کا مطلب ہے کہ ہر چیز مہنگائی کی طرف گئی۔

'برآمدات 2018 کے بعد نہیں بڑھیں'

انہوں نے کہا کہ پھر زراعت، کارخانہ اور زراعت سمیت ہر شعبے کی مصنوعات مہنگی ہوگئیں، روپے کی قدر 35 فیصد تک گرانے کے باوجود برآمدات آج تک 2018 کے مقابلے میں نہیں بڑھیں۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی تقریر کے دوران قومی اسمبلی میں تیسرے روز بھی بدنظمی، اجلاس ملتوی

ان کا کہنا تھا کہ شومئی قسمت ہے کہ انہوں نے ملک کو مہنگائی کے طوفان میں برباد کردیا لیکن ان تین برسوں میں برآمدات نہیں بڑھا سکے۔

'حکومت نے 10 ہزار ارب سے زائد مالیاتی خسارہ کیا'

صدر مسلم لیگ (ن) نے حکومتی اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان تین برسوں میں حکومت نے 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ مالیاتی خسارہ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جس حکومت میں یہ کیڑے نکالتے ہیں، نواز شریف کے تین ادوار کے 10 برسوں میں جو مالیاتی خسارہ ہے، اس کے مقابلے میں ان تین برسوں کا خسارہ کہیں زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزرا نے کہا کہ روپے کی قدر کم ہوگی، اس سے سٹا بازی کی گئی اور بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا۔

شہباز شریف نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت نے ان تین برسوں میں کوئی مشہور ہسپتال بنایا، کوئی یونیورسٹی بنائی، کوئی ٹیکنیکل یونیورسٹی بنائی، کوئی ایل این جی کا اضافہ ٹرمینل بنایا، کوئی اسٹوریج بنائی، اسٹوریج کی عدم دستیابی کی وجہ سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ماسوائے تختیاں لگانے اور فیتے کاٹنے کے کیا کیا ہے، اگر ایک دو مثالیں دو تو ہنسی بھی آئے گی اور حیرانی بھی ہوگی کیونکہ انہوں نے ان منصوبوں پر تختیاں لگائیں اور فیتے کاٹے، جن پر نواز شریف کے دور حکومت میں مکمل ہو کر چل پڑے تھے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ان کا دامن ہر حوالے سے عمل سے خالی ہے کیونکہ کسی کو مال بنانے کا شوق ہو تو وہ کیسے عمل کرے گا، یہ قوم جری ہے، اگر آپ اس کا ہاتھ لے کر چلیں تو ساتھ چلنے والی قوم ہے۔

انہوں نے کہا کہ لنگر خانے بنائے گئے، یہ اچھی بات ہے، حکومت کو اس پر تعاون کرنا چاہیے لیکن حکومت کا اصل کام منصوبہ بندی ہے اور لنگر خانوں میں آنے والوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت کے تین بجٹ کے بعد عوام پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ میرا گھر اور میرا جیب خالی ہے، میں اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالوں، ادویات کہاں سے لاؤں۔

'پاکستان غذائی خسارے کا ملک بن گیا ہے'

وزیرخزانہ شوکت عزیز کی بجٹ تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ یہاں موجود نہیں ہے لیکن انہوں نے ایک طرف کہا کہ پاکستان میں ریکارڈ فصلیں ہوئی ہیں اور دوسری طرف کہا کہ پاکستان غذائی خسارے کا ملک بن گیا ہے، یہ کتنے تضاد کی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ریکارڈ زرعی پیداوار ہوئی ہے تو رمضان میں آٹا اور چینی کا ایک کلو خریدنے اور صرف 20 روپے بچانے کے لیے ہماری مائیں بہنوں اور عوام کو لمبی قطاروں میں کیوں کھڑا ہونا پڑا، آج تک اس طرح کا دہل ہلا دینے والا منظر کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے تو آٹا 35 روپے فی کلو سے 85 روپے فی کلو کیسے پہنچ گیا، چینی ہمارے دور میں 52 روپے فی کلو سے اوپر نہیں گئی وہ 100 روپے سے اوپر کس طرح چلی گئی، یہ ہیں وہ چھبتے ہوئے سوال جن کے جواب قوم حق و سچ کے پیرائے میں سننا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم کی اجازت سے اس حکومت نے 11 لاکھ ٹن چینی درآمد کی، اربوں روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے اور روپے کی قدر کھونے دی جاتی ہے، ایک طرف اربوں کی سبسڈی دی جاتی ہے اور دوسری طرف روپے کی غیرمعمولی کمی کی گئی اس طرح ان کے لیے راہیں کھولی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب ایکسپورٹر کے لیے کیا گیا، شور بڑا ہوا کہ نہیں چھوڑوں گا لیکن اب تک کچھ نہیں ہوا، اس کی کوئی وجہ نہیں تھی، یہ اسکینڈلز کی ماں ہے۔

'عوام کی جیب خالی ہے تو بجٹ جعلی ہے'

شہباز شریف نے کہا کہ حکومت کا یہ چوتھا بجٹ ہے، میں نے شروع میں کہا کہ اگر عوام کی جیب خالی ہے تو بجٹ جعلی ہے، اسی طرح یہ بجٹ مہنگائی کم نہیں کرے گا، روزگار مہیا نہیں کرے گا اور غربت کم نہیں کرے گا تو یہ بجٹ نہیں یہ سراسر دھوکا اور قوم کے ساتھ فراڈ ہے، جس کی ہم بھر پور مذمت کرتے ہیں اور ہم اس کو ایکسپوز کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پوری اپوزیشن کا متفقہ فیصلہ ہے کہ واقعی اگر یہی صورت حال ہے، مہنگائی کا اور طوفان آئے گا اور غربت بڑھے گی تو ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنیں گے اور اس بجٹ کو منظور نہیں ہونے دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ غریب کے ساتھ سنگین مذاق ہے، لہٰذا حکومتی بنچوں کے گوش گزار کر رہا ہوں کہ جہاں درستی کی ضرورت ہے وہاں آپ ٹھیک کریں گے تو قوم آپ کے اس فیصلے کو تحسین سے دیکھے گی، قوم کے سامنے اپنی انا اور ضد کوئی چیز نہیں ہوتی۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ خدارا آئیں، ضد اور انا کو اپنا مسئلہ نہ بنائیں اور قوم کا مقدر اور پاکستان کا مفاد کے لیے کام کریں اور پاکستان کو عظیم بنائیں اور اس کے لیے دیر نہ کریں۔

'ٹیکسز کا بوجھ ڈالا گیا'

انہوں نے کہا کہ ان تین برسوں میں ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا ہے، ٹیکس کے اہداف بھی کم تھے اور اس سال بھی شنید ہے کہ ٹیکس کا ہدف کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اضافی ٹیکس لگا کر انہوں نے اضافی رقم جمع کیں وہ ٹیکس میں 800 ارب ہے اور کیسے ممکن ہے کہ ایک سال میں 1100 ارب روپے جمع کریں گے، اس کا مطلب ہے یہ دوگنی مہنگائی لے کر آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں 2013 میں جو ٹیکس سرمایہ تھا وہ 2018 میں دوگنا ہوگیا، 3 ہزار 842 ارب تک پہنچ گیا، آئی ایم ایف کا پروگرام بھی مکمل ہوا، یہاں تو بریک لگ جاتی ہے، ہمارے دور میں آئی ایم ایف کا پروگرام بھی ہوا، ترقیاتی کام بھی ہوئے اور سی پیک کے منصوبے بھی بن گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج تین سال بعد ریورس گیئر لگ گیا ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے، جہاں 2018 میں حکومت ان کے حوالے کی تھی اس کے مطابق آج شرح نمو 7 فیصد تک پہنچ گئی ہوتی اور معیشت کا حجم ہم نے 313 ارب ڈالر پر چھوڑا بدقسمتی سے آج وہ 296 ارب ڈالر پر پہنچ گیا ہے اور گر گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں کچھ نہیں کرنا تھا بلکہ اسی کی پیروی کرنی تھی اور آج معیشت کا حجم 370 ارب ڈالر ہوتی۔

شہباز شریف نے کہا کہ وزیرخزانہ کہتے ہیں کوئی ٹیکس نہیں لگے گا جبکہ شنید ہے کہ 383 ارب کے ٹیکس لگیں گے، اگر ایسا ہوا تو غریب کی روٹی پہلے ہی چھنی جا چکی ہے تو وہ کس طرح زندہ رہے گا اور اپنے بچوں کو کھانے کا انتظام کرے گا۔

ان کاکہنا تھا کہ ان ظالمانہ ٹیکسوں مں خام تیل اور ایل این جی پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگایا جا رہا، اس سے غریب عوام پر ایک نئی قیامت ٹوٹ پڑے گا وہ پہلے ہی تین برسوں میں بےحال ہوچکےہیں، اب ان پر نئے ٹیکس لگا کر وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اطلاع ہے کہ 120 ارب روپے کے اضافی انکم ٹیکس عائد ہونے جارہے ہیں، انکم سے محروم لوگ مگر ان کو کہہ رہے ہیں ٹیکس دو، انکم ان کی ہے نہیں اور ان کو ٹیکس عائد کر رہے ہیں۔

قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط کو طے کرانے میں بعض عالمی طاقتوں کا کردار ہے تو پھر اگر یہ بات ہے تو ایوان کو اعتماد میں لینا چاہیے، کیا شرائط ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایوان کو بتانا چاہیے کہ آئی ایم ایف کی کیا شرائط ہیں اور کون سی وہ طاقتیں ہیں جو اس میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان بطور وزیراعظم ایسے حساس معاملے آتے ہیں تو سیٹ خالی ہوتی ہے، جب مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی بات آتی ہے تو سیٹ خالی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب کورونا کی بات ہوتی ہے تو وزیراعظم کی سیٹ خالی ہوتی ہے، جب کورونا کے خلاف جدوجہد کی بات آتی ہے تو یہ سیٹ خالی ہوتی ہے۔

صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ جب فلسطین کی بات آتی ہے، جب کشمیر کی بات آتی ہے تو ایوان میں وزیراعظم کی سیٹ خالی ہوتی ہے، جب غریب کے منہ سے نوالے چھیننے، بےگھروں کی بات ہوتی ہے تو یہ سیٹ خالی ہوتی ہے، اس طرح ملک نہیں چلتے، ان کا کام ہے کہ ایوان کو بتائیں اور اعتماد میں لیں اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

'پی ٹی آئی حکومت نے پنجاب میں پٹواری نظام واپس لایا'

شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں پنجاب لینڈ ریونیو نظام لاگیا، یہ زمین کے حوالے سے پٹوار کلچر میں 50 ہزار سے زائد رشوت لگتی تھی اور کئی دن لگتے تھے لیکن ہم نے عالمی بینک کے مل کر پروگرام 14 ارب میں مکمل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے 5 کروڑ عوام کو سہولت مل گئی اور ہم کہتے تھے کہ پٹوار کلچر کا خاتمہ کردیا تھا اورمیرٹ تربیت یافتہ افسران آگئے تھے۔

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ میں پٹواری تحصیل دار کی بھرتی ختم کی لیکن آج پٹواری اور تحصیل دار واپس آگئے اور وہی کرپشن کا کلچر جاری و ساری ہے، حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کو چلانے والے سرکردہ لوگ ہیں وہاں ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر اور اے سی کی تبدیلی کے لیے لاکھوں روپے کی رشوت کا بازار گرم ہے، میں آن ریکارڈ بلا خوف و تردید بات کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں اس نظام کا مخالف نہیں ہوں لیکن پٹوار کلچر کا مخالف ہوں۔

شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان میرٹ کے بڑے دلدادہ ہیں اورکنٹینر میں کھڑے ہو کر میرٹ کی بڑی بات کرتے تھے لیکن ایک صوبے میں تین سال کے دوران کتنے آئی جی، چیف سیکریٹری، سیکریٹری صحت، تعلیم کے سیکریٹریز بدل گئے ہیں، ایسے میں کام خاک ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرٹ کی بات کی جائے تو جو بھرتیاں ہورہی ہیں، اس کے بدلے تجوریاں بھری جارہی ہیں جبکہ ہمارے 10 سال میں ہزاروں اساتذہ، پولیس اور نرسیں اور دیگر ملازمین کو بھرتی کیا گیا تھا لیکن کوئی ایک بھی ہم نے مداخلت کی ہے تو میرا گریبان اور آپ کا ہاتھ ہوگا۔

'میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قانون واپس لیا جائے'

شہباز شریف نے کہا کہ اب پاکستان میں میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قانون لایا جا رہاہے، اس قانون کو خود پیمرا نے بھی مسترد کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کالے قانون کو فی الفور واپس لیا جائے، ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہے وہ نیا پاکستان، یہ ہے وہ جمہوریت، یہ ہے وہ طاقت ور کو تابع کرنا، جس کا عمران خان اور پی ٹی آئی 22 سال سے ڈھونڈورا پیٹتے رہے اورجو ان تین سال میں ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔

'کشمیریوں کی خواہشات کے برخلاف فیصلے نہیں کرسکتے'

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے کبھی کہا جاتا ہے کہ جب تک بھارت آرٹیکل 237 واپس نہیں لیتا ہم بات نہیں کریں گے، کبھی کہتے ہیں ہمارا اسے کوئی واسطہ نہیں ہے، وہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی اجازت اورمشاورت کے بغیر کوئی بات کرسکتے ہیں، جن کے خون سے کشمیر کی وادی سرخ ہوچکی ہے، وہ در بدر ہوئے ہیں اور ہزاروں بچے یتیم ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج ہم کیسے ان کی خواہشات کے برخلاف اور اقوام متحدہ میں قراردادیں منظور ہوئیں، لوک سبھا میں خود آنجہانی وزیراعظم نہرو نے اس کی بات کی تھی تو ہم کیسے اکیلے اس بات کو فیصلہ کر سکتے ہیں، یہ ممکن نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تدبر، فہم و فراست سے بات کرنی ہوگی، ورنہ ہم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا، افغانستان کو دیکھ لیجے گا، جو افغانستان کے لیے اچھا ہے وہ پاکستان کے لیے اچھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان اور ہم ہمسایے ہیں، اگر وہاں خدا نخواستہ بدامنی آئی تو ہم اس دہائی میں چلے جائیں گے، جب 40 لاکھ مہاجرین یہاں پر موجود تھے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ہمیں ان تمام مسائل پر بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ فیصلے کرنے ہوں گے۔

'بلدیاتی اداروں پر عدالت کے حکم پر عمل ہو'

شہباز شریف نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تین ماہ سے بلدیاتی اداروں کو بحال کردیا ہے اور عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ ان کو غیر قانونی طور پر توڑا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج تک بلدیاتی اداروں کی بحالی کے حکم عمل درآمد نہیں کیا گیا، اس حکومت نے عدلیہ کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ ان کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرنا چاہیے تاکہ جو عمران خان نیازی کا لوکل باڈیز کا سب سے بڑا نعرہ تھا اور کہا تھا کہ کے پی میں ماڈل تیار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ماڈل کہاں ہے، وہ ماڈل یہ ہے کہ پنجاب میں جو بلدیاتی ادارے تھے ان کو معطل کردیا، اس لیے عوام نے ووٹ دیا تھا اور ووٹ سے ادارے بنائے تھے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ان کا ماڈل یہ ہے کہ جو اپنے حق میں نہیں ہو اس کو ختم کردو، فنا کردو اور معطل کردو یہ ماڈل نہیں چلے گا، یہ ملک 22 کروڑ عوام کا ہے، یہاں جمہوریت کا بول بالا ہوگا، اسلامی آئین، انصاف کا بول بالا ہوگا۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اس ایوان کو سنجیدگی سے چلانا چاہتی ہے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم بھی سنجیدہ طریقے سے ان کی بات سنیں گے اور اس اہوان کی عزت اور وقار کو بحال کرلیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں