مسلمان بزرگ شہری پر تشدد کے خلاف ٹوئٹس پر سوارا بھاسکر کے خلاف شکایت درج

اپ ڈیٹ 18 جون 2021
واقعے کو ایک ہفتہ سے زائد گزرنے کے بعد پیر کو واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی—فوٹو: این ڈی ٹی وی
واقعے کو ایک ہفتہ سے زائد گزرنے کے بعد پیر کو واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی—فوٹو: این ڈی ٹی وی

بھارتی ریاست اترپردیش میں بزرگ مسلمان شہری کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زبردستی داڑھی کاٹنے والے افراد کے خلاف ٹوئٹس کرنے پر اداکارہ سوارا بھاسکر کے خلاف شکایت درج کرادی گئی۔

انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق غازی آباد حملے کی ویڈیو سے متعلق ٹوئٹس کرنے پر اداکارہ سوارا بھاسکر، ارفعہ خانم شیروانی، ٹوئٹر انڈیا کے آصف خان اور ٹوئٹر انڈیا کے سربراہ منیش مہیشوری کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی گئی ہے۔

یہ شکایت دہلی کے تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں ایڈووکیٹ امیت اچاریا نے درج کرائی۔

مزید پڑھیں: بھارت: مسلمان بزرگ شہری کی زبردستی داڑھی کاٹنے والے ملزمان گرفتار

اس شکایت پر ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں کی گئی جبکہ دہلی پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

این ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پولیس کو درج کرائی گئی شکایت میں کہا گیا ہے کہ 'سوارا بھاسکر، صحافی ارفعہ خانم اور آصف نامی شخص نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹس کے ذریعے شہریوں میں نفرت پھیلانے کے لیے پروپیگنڈا شروع کیا'۔

سوارا بھاسکر نے اس واقعے کی مذمت کرتےہوئے کہا تھا کہ 'میں شرمندہ ہوں کہ ہمارے دیوتاؤں کے نام پر کیا ہوتا ہے'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'بھارت اور بیرون ملک مقیم ہندو جو چاہتے ہیں کہ ہر مسلمان اسلام کے نام پر دہشت گردی کی مستقل مذمت کرے تو کیا اب جب ہمارے دیوتاؤں اور مذہب کو اس ظلم کا جواز پیش کرنے کے لیے غلط طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے تو آپ چپ کیوں ہیں'.

اس حوالے سے شکایت کے متن میں کہا گیا کہ 'بھارت میں ٹوئٹر کے سربراہ منیش مہیشوری نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس واقعے میں کسی قسم کا فرقہ وارارنہ عنصر شامل نہیں تھا،جھوٹ پر مبنی ان ٹوئٹس کو ہٹانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی'۔

اترپردیش پولیس کی جانب سے درج کیے گئے مقدمے میں واقعے سے متعلق ’گمراہ کن‘ مواد نہ ہٹانے پر ٹوئٹر کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔

ٹوئٹر پر کو 'فساد برپا کرنے، دشمنی مجرمانہ سازش کے فروغ' کے الزامات کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: بھارت سے اظہارِ یکجہتی پر سوارا بھاسکر پاکستانیوں کی مشکور

اس سے قبل گزشتہ روز ایک ایف آئی آر میں ٹوئٹر، ٹویٹر کمیونیکیشنز انڈیا اور نیوز ویب سائٹ دی وائر، صحافی محمد زبیر اور رانا ایوب، کانگریس کی رہنما شمع محمد، سلمان نظامی، مسکور عثمانی اور مصنف صبا نقوی کو بھی اسی کیس میں نامزد کیا گیا تھا۔

ٹوئٹر اور مذکورہ تمام صارفین پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کی وجہ سے مقدمہ درج کیا گیا جس میں ایک بزرگ مسلمان شخص کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ انہیں مارا پیٹا گیا اور زبردستی جے شری رام اور وندے ماترم کے نعرے لگوائے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ' ان افراد نے معاملے کی تصدیق نہیں کی اور امن کو متاثر کرن اور مذہبی گروہوں کے مابین تفریق پیدا کرنے کے ارادے سے اسے فرقہ وارانہ زاویے سے آن لائن شیئر کیا'۔

خیال رہے کہ بھارتی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ بلند شہر سے تعلق رکھنے والے 72سالہ عبدالصمد سیفی انتقال کی تعزیت اور اپنی بھتیجی سے ملنے کے لیے غازی آباد گئے تھے جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی داڑھی بھی کاٹ دی گئی تھی۔

اس واقعے کو ایک ہفتہ سے زائد گزرنے کے بعد پیر کو واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں انہیں تکلیف دہ واقعے کی روداد سناتے ہوئے دیکھا گیا تھا اور اس ویڈیو پر عوام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی حکومت اور پولیس سے واقعے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان نےتشدد کے بعد میری ویڈیو بناتے ہوئے کہا تھاکہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، تمام مسلمانوں کو اس سے ایک پیغام جائے گا اور چار گھنٹے تک تشدد کرنے کے بعد مجھے چھوڑ دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں