بورڈ آف انویسٹمنٹ کی عدم دلچسپی سے قومی خزانے کو 21 کروڑ روپے کا نقصان

اپ ڈیٹ 18 جون 2021
انہوں نے بتایا کہ اس عرصے میں فیصلہ لینے والے ایسے ریبا سمجھتے رہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے بتایا کہ اس عرصے میں فیصلہ لینے والے ایسے ریبا سمجھتے رہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو مطلع کیا گیا کہ بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) کو 21 کروڑ 22 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ اس نے ربا کے باعث فنڈز میں منافع کے لیے سرمایہ کاری نہیں کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بی او آئی کی سیکریٹری فریینہ مظہر نے کہا کہ بورڈ کی کمانڈ میں تبدیلی کا عمل 2018 سے شروع ہوا اور 4 سیکریٹریز کو تبدیل کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ارسلان افتخار بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ کے اعلیٰ عہدے سے مستعفی

انہوں نے بتایا کہ اس عرصے میں فیصلہ لینے والے اسے ربا سمجھتے رہے اور منافع کے لیے فنڈ میں سرمایہ کاری کرنے کے خلاف تھے۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق میچوریٹی کے بعد فنڈز کی عدم سرمایہ کاری، انتظامیہ کی جانب سے ایک سنگین غلطی تھی۔

پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے فریینہ مظہر کو باور کرایا کہ لوگ منافع کے لیے ان کی ذاتی رقم میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں لیکن یہ عوامی رقم تھی اور انتظامیہ کو یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے انکوائری کرانے اور اس فیصلے کی ذمہ داری طے کرنے کی ہدایت کی۔

ڈپٹی آڈیٹر جنرل مقبول گوندل نے کمیٹی کو بتایا کہ 2001 میں اپنے قیام کے بعد سے بی او آئی اپنے قواعد و ضوابط طے کرنے میں ناکام رہا ہے۔

بی او آئی سیکریٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ وہ اس سلسلے میں وزارت خزانہ سے رہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نجکاری کیلئے اسٹیل ملز کے ٹرانزیکشن اسٹرکچر کی منظوری

پی اے سی کے رکن مونزا حسن نے نشاندہی کی کہ بی او آئی ایکٹ کی دفعہ 23 نے بورڈ کو قواعد وضع کرنے کا اختیار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں مشورہ لینے کے لیے بی او آئی کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے جس کی واضح طور پر قانون میں وضاحت کی گئی ہو۔

کمیٹی نے بی او آئی کو 3 ماہ میں قواعد وضع کرنے کی ہدایت کی۔

آڈٹ رپورٹ میں مزید روشنی ڈالی گئی کہ بی او آئی کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔

بی او آئی کے سیکریٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ چین نے ملک میں کل سرمایہ کاری میں 70 فیصد کا حصہ ڈالا ہے اور ایف ڈی آئی میں نمایاں کمی آئی ہے کیونکہ چینی سرمایہ کاروں نے توانائی کے شعبے سے متعلق پہلے سے جاری منصوبوں سے کافی رقم وصول کی ہے۔

بی او آئی کے جواب کے مطابق 2013 سے 2017 کے دوران ایف ڈی آئی میں بتدریج اضافہ ہوا تھا لیکن توانائی کی کمی، انفرا اسٹرکچر، امن و امان اور عالمی کساد بازاری کی وجہ سے سرمایہ کاری کی پالیسی کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے۔

مزیدپڑھیں: جاپان کو سندھ کے خصوصی اقتصادی زون میں سرمایہ کاری کی دعوت

رانا تنویر نے مؤقف اختیار کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ بی او آئی اپنے مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے جس کے لیے یہ قائم کیا گیا تھا لہذا اسے ختم کیا جانا چاہیے۔

منزہ حسن نے بی او آئی کو مشورہ دیا کہ وہ ایک ملک کی بجائے دوسرے ممالک پر توجہ دیں۔

پی اے سی کے چیئرمین نے بی او آئی سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز کے ساتھ سرمایہ کاری سے متعلق ایک مفصل رپورٹ تیار کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں