مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو جوہری ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 21 جون 2021
وزیراعظم کا ایچ بی او کو انٹرویو: تصویر: ایکسیئز بشکریہ اے پی پی
وزیراعظم کا ایچ بی او کو انٹرویو: تصویر: ایکسیئز بشکریہ اے پی پی

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایک مرتبہ جب مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا تو جوہری ہتھیاروں کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔

یہ بات انہوں نے ایچ بی او پر ایکسیئز پروگرام میں صحافی جوناتھن سوان کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔

سوال پوچھا گیا کہ انٹیلیجنس تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار سب سے تیزی سے بڑھ رہے ہیں، ایسا کیوں؟

جس کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'مجھے نہیں معلوم کہ وہ یہ بات کہاں سے لے آئے، پاکستان کے جوہری ہتھیار دفاعی ہیں تا کہ ہم اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں میرا نہیں خیال کہ یہ بڑھ رہے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، امریکا کو اپنے اڈے استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا، وزیر اعظم

وزیراعظم نے مزید کہا کہ 'جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ جارحانہ چیز نہیں، کوئی بھی ملک جس کا پڑوسی اس سے 7 گنا زیادہ بڑا ہو وہ پریشان ہوگا'۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ 'جوہری ہتھیاروں کے مکمل خلاف تھے اور ہمیشہ سے رہے ہیں، ہم نے بھارت کے ساتھ 3 جنگیں لڑیں اور جب سے ہمارے پاس جوہری دفاع آیا دونوں ممالک کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی، ہمارے ہاں سرحدی جھڑپیں ہوئیں لیکن جنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا'۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس وقت کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا دونوں ہمسایے مہذب لوگوں کی طرح رہنے لگیں گے ہمیں جوہری ہتھیار رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

چین کے ایغور مسلمانوں کا معاملہ

وزیراعظم سے سوال پوچھا گیا کہ وہ کیوں مغرب میں اسلاموفوبیا کے حوالے سے خاصہ بڑھ چڑھ کر بات کرتے ہیں لیکن چین میں ایغور مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموش ہیں؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ تمام معاملات پر 'بند دروازوں کے پیچھے' بات چیت ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چین سب سے مشکل وقت میں ہمارے سب سے بہترین دوستوں میں سے ایک رہا ہے، جب ہم واقعی مشکلات کا شکار تھے چین ہماری مدد کو آیا، وہ جیسے ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں اور ہمارا جو بھی مسئلہ ہو اس پر بند دروازوں کے پیچھے بات کرتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'میں دنیا میں دیکھتا ہوں کہ فلسطین، لیبیا، صومالیہ، شام اور افغانستان میں کیا ہورہا ہے تو کیا میں ہر چیز کے بارے میں بات کرنا شروع کردوں؟ میں اپنی سرحد پر اور اپنے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر توجہ رکھتا ہوں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ جب مقبوضہ کشمیر کے عوام کو نظرانداز کیا جارہا تھا تو مغربی دنیا میں یہ اتنا بڑا مسئلہ کیوں تھا؟ یہ کہیں زیادہ متعلقہ ہے، ایغوروں کے ساتھ شاید جو کچھ ہورہا ہو اس کے مقابلے ایک لاکھ کشمیری جاں بحق ہوچکے ہیں، مقبوضہ وادی ایک 'کھلی جیل' میں تبدیل ہوچکی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'یہ مسئلہ کیوں نہیں ہے؟ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ اسے 'منافقت' سمجھتے ہیں۔

مزید پڑھیں:وزیراعظم کا عالمی رہنماؤں پر اسلاموفوبیا کیخلاف کارروائی کیلئے زور

انہوں نے کہا کہ وہ ان چیزوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جن سے ملک اور اس کی سرحدوں کا تعلق ہے، ایک لاکھ کشمیریوں کا مرنا میرے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہے کیوں آدھا کشمیر پاکستان میں ہے۔

مسلم ریاستوں کے رہنماؤں کو اسلاموفوبیا کے خلاف متحد ہونے کے لیے ارسال کردہ خط کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اسلامی دنیا اور مغربی معاشروں کے درمیان رابطوں کا بڑا فقدان ہے، یہ 9/11 کے بعد ہوا جب 'اسلامی' دہشت گردی کا لفظ استعمال میں آیا۔

انہوں نے کہا کہ جس لمحے آپ اسلامی دہشت گردی کہتے ہیں، مغرب کا عام آدمی سمجھتا ہے کہ ایسا کچھ مذہب میں ہے جو دہشت گردی کا باعث بنتا ہے، 9/11 کے بعد جب کہیں کسی دہشت گرد حملے میں مسلمان ملوث ہوتا دنیا بھر کے ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا۔

امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا پر 'خوش' ہیں؟ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ ایک طریقے سے خوش ہوں کیوں کہ افغانستان کا کوئی عسکری حل نہیں نکلنا تھا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لیکن تشویش کے احساسات بھی ہیں کیوں کہ ایک سیاسی تصفیے کے بغیر خانہ جنگی کا امکان ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ان کی نظر میں ایک سیاسی تصفیے کا مطلب طالبان اور افغان قیادت کی اتحادی حکومت ہے، اس کے سوا کوئی حل نہیں۔

جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا امریکا نے انخلا کی تاریخ کا اعلان کر کے غلطی کی؟ تو وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اپنے آپ کو بڑے بکھیڑے میں ڈال دیا ہے، انہیں کوئی ٹائم فریم دینا تھا لیکن جب انہوں نے ایک ٹائم فریم دیا طالبان نے اسے فتح سمجھا۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کو افغانستان میں سیکیورٹی خلا کے حوالے سے تشویش

انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو جو کوئی بھی افغانستان کے عوام کی نمائندگی کرے گا وہ اس کے ساتھ معاملہ کرے گا۔

صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ کو اس بات سے تشویش نہیں کہ لوگوں کا یہ گروہ (طالبان) آپ کے بالکل قریب طاقت جمع کررہا ہے۔

جس پر وزیراعظم بولے کہ دیکھیں میں طالبان کا ترجمان نہیں، میرے لیے یہ کہنا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے کیا نہیں بے معنی ہے لیکن اگر طالبان نے مکمل فتح پانے کی کوشش کی تو بہت زیادہ خون خرابہ ہوگا اور جو ملک افغانستان کے بعد اسے سب سے زیادہ بھگتے گا وہ پاکستان ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 30 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں، امریکا کے جانے سے قبل سیاسی تصفیہ لازمی ہونا چاہیے۔

امریکا کے ساتھ تعلقات

سی آئی اے ڈائریکٹر ولیم برنز کے حالیہ دورے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 9/11 کے بعد سے دونوں ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیز 'مسلسل رابطے' میں ہیں تاہم انہوں نے سی آئی اے سربراہ سے ملاقات سے انکار کیا۔

صحافی نے سوال کیا کہ 'کیا آپ امریکی حکومت کو پاکستان میں سی آئی اے رکھنے کی اجازت دیں گے تا کہ وہ القاعدہ، داعش یا طالبان کے خلاف سرحد پار انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں کرسکے؟

جس کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ 'ہرگز نہیں، کسی بھی صورت ہم اپنے اڈوں کے استعمال کی اور نہ ہی پاکستانی حدود سے افغانستان میں کسی بھی طرح کی کارروائی کی اجازت دیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'پاکستان نے 70 ہزار لاشیں برداشت کی ہیں جو امریکی جنگ میں حصہ لینے والے کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ ہے، ہم اپنی سرزمین سے مزید عسکری کارروائیوں کے متحمل نہیں ہیں، ہم تنازع میں نہیں امن میں حصہ دار بنیں گے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان امریکی فضائیہ کو طالبان کے خلاف فضائی حملے کرنے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ پاکستان 'کسی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا'۔

صحافی کی جانب سے اصرار کرنے پر انہوں نے کہا کہ اس پر بات چیت نہیں ہوئی ہے، 'امریکی افغانستان پر بم کیوں برسائیں گے جب اس کا 20 سالوں میں کوئی فائدہ نہیں ہوا؟'

صحافی نے پوچھا کہ کیا امریکی صدر جوبائیڈن نے جب سے منصب سنبھالا ہے ان سے آپ کی بات چیت ہوئی؟ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ 'نہیں بات چیت نہیں ہوئی'، صحافی نے پوچھا کہ کیا اس کی کوئی وجہ ہے؟ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ جب ان کے پاس وقت ہو وہ مجھ سے بات کرسکتے ہیں لیکن اس وقت یہ واضح ہے کہ ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔

صحافی نے سوال کیا کہ آپ جو بائیڈن سے کیا بات کریں گے؟ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ جب مقبوضہ کشمیر کی بات آتی ہے امریکا پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، 'اگر امریکا عزم اور خواہش کرے تو مسئلہ کشمیر حل ہوسکتا ہے'۔

پاکستان میں جنسی تشدد کے مسائل

وزیراعظم سے ان کے ریپ کو فحاشی کے ساتھ منسلک کرنے کے بیان کے بارے میں سوال کیا گیا جس پر انہوں نے کہا کہ 'یہ سراسر بکواس ہے میں نے ایسا نہیں کیا، میں نے تو پردے کے تصور پر بات کی تھی پردے کا تصور یہ ہے کہ معاشرے میں فتنے سے گریز کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک مکمل مختلف معاشرہ ہے 'اگر آپ معاشرے میں فتنے کو پروان چڑھائیں گے اور ان نوجوانوں کے پاس کہیں اور جانے کا راستہ نہیں ہوگا تو اس کے اثرات مرتب ہوں گے'۔

مزید پڑھیں: فحاشی پھیلنے کا معاشرے پر اثر پڑتا ہے، وزیراعظم

جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ 'کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خواتین جو پہنیں اس کا کوئی اثر ہوتا ہے، کیا یہ فتنے کا حصہ ہے؟'

جس پر وزیراعظم نے کہا کہ 'اگر خواتین بہت مختصر لباس پہنیں گی اس کا مردوں پر اثر ہوگا تاوقتیکہ وہ روبوٹ ہوں، میرا مطلب عمومی سمجھ کی بات ہے کہ اگر آپ کا معاشرہ ایسا ہو کہ جہاں لوگوں نے ایسی چیزیں نہ دیکھی ہوں تو اس کا ان پر اثر ہوگا۔

جب صحافی نے بحیثیت بین الاقوامی کرکٹ اسٹار کے ان کا ماضی یاد دلایا تو وزیراعظم نے کہا کہ 'یہ میرے بارے میں نہیں میرے معاشرے کے بارے میں ہے، میری ترجیح یہ ہے کہ میرے معاشرے کا رویہ کیا ہے اس لیے جب ہم دیکھیں گے کہ جنسی جرائم بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں تو ہم بیٹھیں گے اور اسے روکنے کے بارے میں بات چیت کریں گے، اس کا میرے معاشرے پر اثر پڑ رہا ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں