امریکا میں پرتشدد جرائم میں اضافہ، جو بائیڈن کا اسلحہ کے کنٹرول پر زور

اپ ڈیٹ 24 جون 2021
جو بائیڈن نے کہا کہ موت کے سوداگر منافع کے لیے قانون کو توڑ رہے ہیں۔ - فوٹو:رائٹرز
جو بائیڈن نے کہا کہ موت کے سوداگر منافع کے لیے قانون کو توڑ رہے ہیں۔ - فوٹو:رائٹرز

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے زور دیا ہے کہ وہ غیر قانونی بندوق فروشوں کا سراغ لگائیں گے اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے وفاقی مالی اعانت اور حمایت میں اضافہ کریں گے کیونکہ بڑے شہروں میں قتل عام کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن نے کہا کہ 'موت کے سوداگر منافع کے لیے قانون کو توڑ رہے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو اسلحہ فروشوں کے خلاف 'صفر رواداری' اپنانی ہوگی جو وفاقی قوانین کی خلاف ورزی پر جوابدہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت ریاستوں کو کورونا وائرس سے معیشت کی بحالی کے لیے پہلے سے منظور شدہ فنڈز کا استعمال کرتے ہوئے مزید پولیس افسران کو ملازمت دینے میں بھی مدد کرے گی۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ نے 'نیم خودکار اسلحہ واپسی' کی اسکیم متعارف کروادی

جو بائیڈن نے اسلحہ فروشوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ کو میرا پیغام یہ ہے کہ ہم آپ کو ڈھونڈیں گے اور ہم آپ سے بندوقیں فروخت کرنے کا لائسنس طلب کریں گے، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آپ ہماری سڑکوں پر موت اور تباہی نہیں بیچ سکتے'۔

جو بائیڈن اور اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے وائٹ ہاؤس میں محکمہ انصاف کے جاری کردہ اقدامات پر ایک مرتبہ پھر زور دیتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ ریاستوں میں اسلحہ کی غیر قانونی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے بیورو آف الکحل، تمباکو، اسلحہ اور دھماکا خیز مواد (اے ٹی ایف) کی کوششوں کو مزید اختیارات دے گی۔

اپریل میں جو بائیڈن نے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے تھے جس میں ڈی او جے سے کہا گیا تھا کہ وہ خود ساختہ 'گھوسٹ گنز' پر کارروائی کرے۔

امریکی آئین کی دوسری ترمیم میں دیے گئے اسلحہ کے حقوق، امریکا سب سے زیادہ بحث ہونے والے سیاسی امور میں شامل ہے جہاں اسلحہ سے ہلاکتوں کی شرح دوسرے دولت مند ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔

وائٹ ہاؤس نے خود مختار تحقیقاتی گروپ برائے فوجداری انصاف کی کونسل کی ایک رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ امریکا کے بڑے شہروں میں قتل عام میں 30 فیصد اضافہ ہوا جبکہ بندوق کے حملوں میں شکاگو اور ہیوسٹن سمیت بڑے شہروں میں 8 فیصد اضافہ ہوا۔

مجموعی طور پر قومی شرح اب بھی 1970 یا 1980 کی دہائی میں قومی اوسط سے بہت کم ہے۔

ایک تحقیقی گروپ گن وائلنس آرکائیو کے مطابق رواں سال 20 ہزار 989 امریکی بندوق کے حملوں سے ہلاک ہوئے جس میں سے آدھے سے زیادہ نے خودکشی کی۔

ریپبلکن پارٹی نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک انتظامیہ کو 'ڈیموکریٹس کا سامنا کرنا چاہیے تھا' جن کا ماننا ہے کہ امریکا میں بندوقوں تک آسان رسائی تشدد کا ایک ذریعہ ہے۔

سیاہ فام لوگوں کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں اور صدارتی انتخابات کے دوران معاشرتی بدامنی اور کورونا وائرس وبا کے پھیلاؤ کے دوران 2020 میں امریکا میں اسلحہ کی فروخت میں اضافہ دیکھا گیا۔

چند ماہرین نے خبردار کیا کہ اس سے قتل عام میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ ہیمین وے نے بتایا کہ 'یہ بات بالکل واضح ہے کہ زیادہ بندوقوں کا مطلب ہے موت'۔

کونسل برائے فوجداری انصاف کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 'تاہم بندوقوں کی فروخت اور قتل عام کے درمیان رابطے کی حمایت کرنے کے لیے چند ابتدائی شواہد موجود ہیں تاہم مزید تحقیق کی ضرورت ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں