بھارت: پولیس کو ٹوئٹر کے سربراہ کے خلاف سخت کارروائی سے روک دیا گیا

اپ ڈیٹ 25 جون 2021
ٹوئٹر اور کچھ صارفین پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کی وجہ سے  مقدمہ درج کیا گیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز
ٹوئٹر اور کچھ صارفین پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کی وجہ سے مقدمہ درج کیا گیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز

بھارت کی ایک عدالت نے ٹوئٹر انڈیا کے سربراہ کے خلاف دائر مقدمے سے متعلق کہا ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے مقامی سربراہ کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے غازی آباد حملے کی ویڈیو سے متعلق ٹوئٹس کرنے پر اداکارہ سوارا بھاسکر، ارفعہ خانم شیروانی، ٹوئٹر انڈیا کے آصف خان اور ٹوئٹر انڈیا کے سربراہ منیش مہیشوری کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی گئی تھی۔

جس کے بعد پولیس نے منیش مہیشوری کو مبینہ طور پر مذہبی تنازع کو ہوا دینے والی ویڈیو کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکامی پر طلب کیا تھا۔

مزید پڑھیں: مسلمان بزرگ شہری پر تشدد کے خلاف ٹوئٹس پر سوارا بھاسکر کے خلاف شکایت درج

ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے بھارتی ریاست اترپردیش میں پولیس کی جانب سے ٹوئٹر انڈیا کے سربراہ منیش مہیشوری کو جاری کیے گئے سمن میں حکام کے سامنے پیش ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔

منیش مہیشوری سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان 'نفرت اور دشمنی' پیدا کرنے سمیت دیگر الزامات پر جواب طلب کیا گیا تھا۔

تاہم ذرائع کے مطابق منیش مہیشوری، جو بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹکا کے شہر بنگلورو میں مقیم ہیں، انہوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور سمن منسوخ کرنے کی اپیل کی تھی۔

جس کے بعد گزشتہ روز ان کی اپیل پر ہونے والی سماعت میں جج نے کہا کہ منیش مہیشوری کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی جاسکتی اور ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ان سے جواب طلب کیاجاسکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق عدالتی حکم کے ذریعے منیش مہیشوری کو پولیس کی جانب سے ممکنہ گرفتاری سے تحفظ مل گیا ہے۔

ٹوئٹر اور کچھ صارفین پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کی وجہ سے مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ایک بزرگ مسلمان شخص کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ انہیں مارا پیٹا گیا اور زبردستی جے شری رام اور وندے ماترم کے نعرے لگوائے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: مسلمان بزرگ شہری کی زبردستی داڑھی کاٹنے والے ملزمان گرفتار

اس حوالے سے بھارتی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ بلند شہر سے تعلق رکھنے والے 72 سالہ عبدالصمد سیفی انتقال کی تعزیت اور اپنی بھتیجی سے ملنے کے لیے غازی آباد گئے تھے جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی داڑھی بھی کاٹ دی گئی تھی۔

اس واقعے کو ایک ہفتہ سے زائد گزرنے کے بعد اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں انہیں تکلیف دہ واقعے کی روداد سناتے ہوئے دیکھا گیا تھا اور اس ویڈیو پر عوام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی حکومت اور پولیس سے واقعے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان نےتشدد کے بعد میری ویڈیو بناتے ہوئے کہا تھاکہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، تمام مسلمانوں کو اس سے ایک پیغام جائے گا اور چار گھنٹے تک تشدد کرنے کے بعد مجھے چھوڑ دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں