کچھ طاقتیں چاہتی ہیں پاکستان پر فیٹف کی تلوار لٹکتی رہے، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 26 جون 2021
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے تو استعمال نہیں کیا جارہا؟ — فائل فوٹو / اے پی پی
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے تو استعمال نہیں کیا جارہا؟ — فائل فوٹو / اے پی پی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایکشن پلان کے 27 میں سے 26 نکات پر مکمل عملدرآمد کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق ایف اے ٹی ایف کے پاکستان کو ‘گرے لسٹ’ میں برقرار رکھنے کے فیصلے کے حوالے سے بیان میں وزیر خارجہ نے کہا کہ اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ ایف اے ٹی ایف ایک تکنیکی فورم ہے یا سیاسی؟ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے تو استعمال نہیں کیا جارہا؟

انہوں نے کہا کہ جہاں تک تکنیکی پہلوؤں کا تعلق ہے تو ہمیں 27 نکات دیے گئے اور وہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ 27 میں سے 26 نکات پر ہم نے مکمل عملدرآمد کر لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 27ویں نکتے پر بھی کافی حد تک پیش رفت ہو چکی ہے اور مزید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میری نظر میں ایسی صورتحال میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رہنے اور رکھنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان بدستور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں موجود

انہوں نے کہا کہ ‘بعض قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کے سر پر تلوار لٹکتی رہے، میں یہ بھی واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم نے جو بھی اقدامات اٹھائے وہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اٹھائے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مفاد یہ ہے کہ منی لانڈرنگ نہیں ہونی چاہیے، پاکستان کی منشا یہ ہے کہ ہم نے دہشت گردی کی مالی معاونت کا تدارک کرنا ہے۔

وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ جو بات پاکستان کے مفاد میں ہے وہ ہم کرتے رہیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا نام بدستور ‘گرے لسٹ’ میں رہے گا، تاہم اس نے 27 میں سے 26 نکات پر بہتری دکھائی ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکوس پلیئر نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان بدستور نگرانی میں رہے گا، پاکستانی حکومت نے انسداد دہشت گردی فنانسگ نظام کو مضبوط اور مؤثر بنانے کے لیے بہتر کام کیا ہے۔

صدر ایف اے ٹی ایف نے کہا کہ پاکستان نے 27 میں سے 26 نکات پر کام کیا ہے تاہم ایک پوائنٹ پر کام کرنا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فنانشل ٹیرارزم کے منصوبے پر کارروائی کی ضرورت ہے، جس میں اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل رہنماؤں اور کمانڈرز کے خلاف تفتیش اور سزائیں دلانا شامل ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کو مزید ‘گرے لسٹ’ میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے، وزیر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ 2019 میں ایف اے ٹی ایف کے ریجنل پارٹنر اے پی جی اے نے پاکستان کے انسداد منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی فنانسگ سسٹم کے حوالے سے اقدامات کی نشان دہی کی تھی، لیکن اس کے بعد بہتری آئی ہے اور کیسز بنانے کے لیے فنانشل انٹیلی جنس کا استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تاحال کئی شعبوں میں ایف اے ٹی ایف کے عالمی سطح کے معیارات پر مؤثر عمل درآمد میں ناکام رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ منی لانڈرنگ کے خدشات اب بھی بہت زیادہ ہیں، جو کرپشن اور منظم جرائم کے خطرات ہیں، اسی لیے ایف اے ٹی ایف پاکستانی حکومت کے ساتھ ان شعبوں میں کام کررہا ہے جہاں بہتری کی ضرورت ہے۔

مارکوس پلیئر نے کہا کہ آخری نکتے پر اولین ایکشن پلان کے مطابق کام ہوا تھا لیکن نام فہرست سے نہیں نکالا گیا کیونکہ اس کے برابر ایک اور ایکشن پلان بھی دیا گیا تھا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان جانتا ہے کہ اس سے کیا توقعات ہیں اور وہ ان اہداف کو پورا کرے گا، ہم ان کے ساتھ تعاون کریں گے اور نگرانی کریں گے، 4 ماہ بعد دوبارہ جائزہ لیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں