خیبر پختونخوا (کے پی) کے ضلع بنوں میں جانی خیل قبیلے کے افراد کا ایک ماہ سے جاری احتجاج حکام کی جانب سے لاپتا ہونے والے 4 افراد کی بازیابی کے بعد ختم کردیا گیا۔

بنوں ڈویژن کے کمشنر شوکت علی یوسف زئی نے پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جانی خیل قبیلے کے افراد نے مقامی انتظامیہ سے کامیاب مذاکرات کے بعد اپنا احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے والے جانی خیل قبائلیوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں

ڈان ڈاٹ کام کو کمشنر نے بتایا کہ احمد زئی قبیلے کا جرگہ ہوا اور حکومت سے جانی خیل قبیلے کے مظاہرین کی جانب سے مذاکرات کیے اور دونوں فریقین نے معاہدے پر اتفاق کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے معاہدے کے تحت لاپتا 4 افراد کو رہا کردیا تاہم انہوں نے رہا ہونے والے افراد کے نام، عمر اور دیگر تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ احمد زئی قبیلے کے عمائدین سمیت 7 رکنی جرگہ معاہدے پر عمل درآمد اور دونوں فریقین کے درمیان پائے جانے والے دیگر مسائل کا جائزہ لے گا۔

کمشنر کا کہنا تھا کہ جانی خیل قبیلے اور حکومت کے درمیان رواں برس مارچ میں ایک اور معاہدہ ہوا تھا، جو جانی خیل قبیلے کے 4 افراد کے قتل کے بعد ہونے والے احتجاج کے خاتمے کے لیے ہوا تھا اور وہ معاہدہ تاحال جاری ہے۔

جانی خیل قبیلے کے مظاہرین کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تصدیق بنوں میران شاہ روڈ پر احتجاج کے مقام پر موجود مقامی افراد نے بھی کی۔

انہوں نے کہا کہ مظاہرین جانی خیل قبیلے کے قصبوں کی جانب واپس جارہے ہیں اور قتل ہونے والے قبیلے کے رہنما ملک نصیب خان کی تدفین کریں گے، جن کے قتل سے احتجاج شروع ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: جانی خیل مظاہرین کا نوجوانوں کی لاشوں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب مارچ

خیال رہے کہ مقتول قبائلی رہنما متحرک شخصیت تھے اور مارچ میں قتل ہونے والے 4 نوجوانوں کے خلاف احتجاج میں نمایاں تھے اور انہیں ایک ماہ قبل مسلح افراد نے قتل کردیا تھا۔

مظاہرین نے 23 جون کو مقتول رہنما کی لاش کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کر دیا تھا اور کہنا تھا کہ پولیس ملزمان کو پکڑنے میں ناکام ہوگئی ہے۔

ان کا مطالبہ تھا کہ علاقے میں موجود انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور ملک نصیب خان کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔

اسلام آباد کی طرف مارچ شروع ہونے کے بعد حالات مزید کشیدہ ہوگئے تھے اور جانی خیل سے تقریباً 7 کلومیٹر دور ٹوچی خان پل پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔

اس دوران ایک نوجوان جاں بحق ہوگیا تھا اور پولیس سمیت مزید 24 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں